اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال ستمبر میں اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا۔ فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی یہ کانفرنس جون میں اس وقت ملتوی کر دی گئی تھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تھا۔ درجنوں ملکوں کے وزراء اس کانفرنس میں شریک ہوں گے، جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے پیش رفت کرنا ہے، تاہم امریکہ اور اسرائیل اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب غزہ میں انسانی صورت حال بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

اس کانفرنس سے چند روز قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا تھا کہ پیرس ستمبر میں باقاعدہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرے گا، جس کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی نئی تحریک کو تقویت ملی ہے۔

کانفرنس کا مقصد ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے روڈمیپ کے خد و خال وضع کرنا ہے، جبکہ اسرائیل کی سکیورٹی کو بھی یقینی بنانا اس کا ایک اہم جزو ہے۔

سعودی عرب نے کیا کہا؟

کانفرنس سے قبل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’مملکت ہر اس کوشش کی مکمل حمایت کرتی ہے جو خطے اور دنیا میں منصفانہ امن کے قیام کے لیے کی جا رہی ہو۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسی نظریے کے تحت سعودی عرب نے فرانس کے ساتھ مل کر اس بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت سنبھالی ہے تاکہ فلسطینی تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد مشرقی یروشلم (القدس) کو دارالحکومت بنانے والی 1967ء کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سے منصفانہ اور جامع امن قائم کرنا ہے۔

فرانس کا بیان

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے اتوار کو ایک فرانسیسی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اس کانفرنس کو اس مقصد کے لیے بھی استعمال کریں گے کہ دیگر ممالک کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے قائل کیا جا سکے۔

بارو نے کہا، ’’ہم نیویارک میں ایک اپیل کا آغاز کریں گے تاکہ دیگر ممالک بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں اور ایک ایسی مزید پُرعزم اور مؤثر سفارتی تحریک کی ابتدا کریں جو 21 ستمبر کو اپنے عروج پر پہنچے۔

‘‘

خیال رہے کہ صدر ایمانوئل ماکروں نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔

بارو نے نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس وقت تک عرب ممالک بھی فلسطینی عسکری گروہ حماس کی مذمت کریں گے اور اس کے غیر مسلح کیے جانے کا مطالبہ کریں گے۔

امریکہ اور اسرائیل کانفرنس میں شریک نہیں

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ ترجمان کے مطابق یہ کانفرنس ’’حماس کے لیے ایک تحفہ ہے، جو تاحال ان جنگ بندی تجاویز کو مسترد کر رہا ہے جنہیں اسرائیل منظور کر چکا ہے اور جو یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں امن کے قیام کا باعث بن سکتیں۔

‘‘

ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے گزشتہ سال جنرل اسمبلی میں اس کانفرنس کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا اور’’ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو اس تنازعے کے طویل المدتی اور پرامن حل کے امکانات کو خطرے میں ڈالے۔‘‘

اسرائیل بھی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی مشن کے ترجمان جوناتھن ہارونوف نے کہا، ’’یہ کانفرنس سب سے پہلے فوری طور پر حماس کی مذمت اور باقی تمام یرغمالیوں کی واپسی جیسے اہم مسائل کو حل نہیں کرتی، اسی لیے اسرائیل اس میں شرکت نہیں کر رہا۔

‘‘ پاکستان کا ردعمل

کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’’میں نیو یارک میں منعقدہ اس اعلیٰ سطح بین الاقوامی کانفرنس میں فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ، اصولی اور مستقل مؤقف کا اعادہ کروں گا۔‘‘

اسحاق ڈار نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا،’’ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ کانفرنس فلسطینی ریاست کے قیام، 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے، غزہ کے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور فلسطینی عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات فراہم کرے گی۔

‘‘

پاکستان کے نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’’یہ مسئلہ سنبھالنے میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ سعودی عرب اور فرانس کی کوشش قابل ستائش ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے کہتا آیا ہے کہ فلسطین کا حل صرف دو ریاستی فارمولہ ہے۔‘‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس فوری جنگ بندی، خوراک، ادویات اور دیگر امداد کی روانی کی راہ ہموار کرے گی اور فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کروانے میں مددگار ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اس کانفرنس میں فلسطینی ریاست اقوام متحدہ اور فلسطین یہ کانفرنس نہیں کر کیا تھا کریں گے کے قیام اور اس نے کہا کہا کہ کرے گا کے لیے

پڑھیں:

مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی سفارت کاروں کو لاجواب کر دیا، من گھڑت بھارتی دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔

جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوؤں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔

Right of Reply by First Secretary Sarfaraz Ahmed Gohar
In Response to Remarks of the Indian Delegate
During the General Debate on Presentation of the Report of Human Rights Council
(31 October 2025)
*****

Mr. President,

I am using this right of reply to respond to the India’s… pic.twitter.com/XPO0ZJ6w6q

— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) October 31, 2025


انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی یہ متنازع حیثیت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری دونوں تسلیم کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کے تمام سرکاری نقشوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔

سرفراز گوہر نے کہا کہ بھارت پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دے۔

انہوں نے کہا کہ بارہا، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرز، خصوصی نمائندے، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور آزاد میڈیا نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری نے کہا کہ آج کے انتہا پسند اور ناقابلِ برداشت بھارت میں، سیکولرازم کو ہندوتوا نظریے کے بت کے سامنے قربان کر دیا گیا ہے، وہ ہندو بنیاد پرست عناصر جو حکومت میں عہدوں، سرپرستی اور تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کے مرکزی کردار ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔

انہوں نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرے، اور بھارتی نمائندے کو مشورہ دیں کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے ترک کرے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کل استنبول کا ایک روزہ دورہ کریں گے
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان