برازیلیا(نیوز ڈیسک) برازیل نے بھارت کے تیار کردہ آکاش میزائل سسٹم کی خریداری پر جاری مذاکرات روک دیے ہیں اور اس کے بجائے ایک جدید یورپی دفاعی نظام کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ برازیلی فضائیہ اب یورپی کمپنی MBDA کے تیار کردہ CAMM-ER میزائل سسٹم کی جانب متوجہ ہو چکی ہے، جو جدید ٹیکنالوجی اور بہتر رینج کا حامل ہے۔

رینج، ٹیکنالوجی اور اعتبار نے یورپی نظام کو آگے کر دیا

اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، برازیل نے ابتدائی طور پر بھارتی آکاش میزائل کے پرانے ورژن میں دلچسپی ظاہر کی تھی، تاہم جب یہ واضح ہوا کہ بھارت جدید آکاش-NG ورژن کی پیشکش نہیں کر رہا، تو برازیلی حکام نے یورپی آپشن کی طرف جھکاؤ اختیار کیا۔ CAMM-ER کی رینج 45 کلومیٹر ہے، جب کہ آکاش میزائل کی حد 25 سے 30 کلومیٹر تک محدود ہے۔

یورپی سسٹم میں جدید 360 ڈگری کوریج، سافٹ ورٹیکل لانچ، اور جدید ریڈار سیکر شامل ہیں، اور اسے برطانیہ، اٹلی اور پولینڈ جیسے ممالک میں پہلے ہی کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

تقریباً ایک ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ متوقع

رپورٹ کے مطابق، برازیل کی جانب سے یورپی دفاعی نظام کی ممکنہ خریداری کا حجم 920 ملین ڈالر تک ہو سکتا ہے، جس میں لانچر، میزائل، ریڈار، اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز شامل ہوں گے۔

مودی لولا ڈی سلوا ملاقات کے باوجود دفاعی معاہدے میں پیش رفت نہ ہو سکی

دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور برازیلی صدر لولا ڈی سلوا کے درمیان حالیہ ملاقات میں دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ستمبر 2023 میں G20 اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماؤں نے سائبر سکیورٹی، خلائی تحقیق اور دفاع کے شعبے میں شراکت داری بڑھانے پر بات چیت کی تھی۔ تاہم، آکاش میزائل سے متعلق کوئی حتمی پیش رفت نہ ہو سکی۔

بھارتی دفاعی حلقوں میں تشویش

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برازیل کا یہ فیصلہ بھارت کے لیے سفارتی و تکنیکی دھچکا ہے، کیونکہ آکاش میزائل کو بھارت کی دفاعی خود انحصاری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بھارت اس میزائل کو ویتنام، فلپائن اور ارجنٹینا جیسے ممالک کو فروخت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: آکاش میزائل

پڑھیں:

جرمن چانسلر  کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انقرہ: جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ برلن چاہتا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے کیونکہ عالمی سیاست کے موجودہ منظرنامے میں ترکی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس  کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہاکہ  انہوں نے صدر اردوان کو بتایا ہے کہ وہ یورپی سطح پر ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کوپن ہیگن معیارات پر بھی بات ہوئی ہے، ہم ایک نئے جغرافیائی سیاسی دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں بڑی طاقتیں عالمی سیاست کی سمت طے کر رہی ہیں، ایسے میں یورپ کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ترکی تمام خارجہ و سیکیورٹی امور میں ایک اہم فریق ہے اور جرمنی اس کے ساتھ سیکیورٹی پالیسی کے میدان میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی پیش رفت مثبت اشارہ ہے اور پہلی بار پائیدار امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔

انہوں نے غزہ میں قیامِ امن کے لیے ترکی، قطر، مصر اور امریکا کے کردار کو سراہا تے ہوئے  کہا کہ یہ عمل ان ممالک کے بغیر ممکن نہیں تھا، جرمنی اس امن عمل کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ جرمن افسران کو پہلی بار اسرائیل کے جنوبی حصے میں ایک سول-ملٹری سینٹر میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ انسانی امداد کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکے۔

انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی موجودگی اور حماس کے بغیر گورننس سسٹم قائم کیا جانا ضروری ہے۔

مرز نے کہا کہ “اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے بعد جو ردعمل آیا، وہ اس کا حقِ دفاع ہے، اور امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت یہ عمل پائیدار امن کی راہ ہموار کرے گا۔

ترک صدر اردوان نے اس موقع پر کہا کہ  ماس کے پاس نہ بم ہیں، نہ ایٹمی ہتھیار، مگر اسرائیل ان ہتھیاروں سے غزہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جرمنی کو کیا یہ سب نظر نہیں آرہا،چانسلر مرز نے ترکی کی جانب سے یورو فائٹر ٹائیفون طیارے خریدنے کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ طیارے ہماری مشترکہ سیکیورٹی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے، اور یہ تعاون دفاعی و صنعتی شعبے میں نئے مواقع پیدا کرے گا،  دونوں ممالک نے ٹرانسپورٹ، ریلویز اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے مزی کہاکہ  ہم نیٹو اتحادی ہیں اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی یورپ و اٹلانٹک خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے نیٹو کی متفقہ حکمتِ عملی پر سختی سے عمل ضروری ہے،  ترکی اور جرمنی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ روس کے منجمد اثاثوں سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے پر پیش رفت ہو رہی ہے اور یورپی یونین و امریکا اس ضمن میں مشترکہ پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

ایک سوال پر مرز نے کہا کہ جرمنی اور یورپ میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ  جرمنی ایک آزاد اور کھلا معاشرہ ہے جہاں مسیحی اور مسلمان دونوں آئین کے تحت برابر تحفظ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • امریکہ نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے‘اعجازقادری
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
  • جرمن چانسلر  کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش
  • کوالالمپور: امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ
  • امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے
  • امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ، خطے میں نئی صف بندی کا آغاز
  • امریکا اور بھارت نے 10 سال کے لیے دفاعی معاہدہ کرلیا
  • امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط