بھارت کو بڑا دھچکا، برازیل نے آکاش میزائل سسٹم کی خریداری سے انکار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
برازیل نے بھارت کے تیار کردہ آکاش میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری کے مذاکرات منقطع کردیے ہیں اور اس کے بجائے ایک یورپی میزائل نظام کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ بھارت کےلیے ایک بڑا سفارتی اور دفاعی دھچکا ہے، کیونکہ آکاش سسٹم کو بھارتی دفاعی صنعت کا اہم برآمدی پروڈکٹ سمجھا جاتا ہے۔
اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق برازیلی فضائیہ نے MBDA نامی یورپی کمپنی کے CAMM-ER میزائل سسٹم کو ترجیح دی ہے، جو 45 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی آکاش میزائل کی رینج صرف 25 سے 30 کلومیٹر تک محدود ہے۔
برازیلی حکام کو خدشہ تھا کہ بھارت کی جانب سے پیش کیے جانے والے نظام میں جدید ترین آکاش-NG ورژن شامل نہیں ہے، جو ابھی تک تیاری کے مراحل میں ہے۔
یورپی کمپنی MBDA کا پیش کردہ Enhanced Modular Air Defence Solutions (EMADS) نظام کئی جدید خصوصیات سے لیس ہے، جن میں 360 ڈگری دفاعی صلاحیت، سافٹ ورٹیکل لانچ ٹیکنالوجی اور جدید ریڈار سسٹم شامل ہیں۔ یہ نظام پہلے ہی برطانیہ، اٹلی اور پولینڈ میں تعینات کیا جاچکا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس معاہدے کی مالیت تقریباً 920 ملین امریکی ڈالر (5 ارب برازیلین ریئلز) ہو سکتی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور برازیلی صدر لولا ڈی سلوا کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق ہوا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے سائبر سیکیورٹی، خلائی تحقیق اور دفاعی شعبے میں باہمی تعاون بڑھانے پر غور کیا تھا۔ تاہم، آکاش میزائل کے معاہدے پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔
بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ملک اپنے دفاعی سازوسامان کی برآمد کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت آکاش میزائل سسٹم کو ویتنام، فلپائن اور ارجنٹینا سمیت دیگر ممالک کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آکاش میزائل
پڑھیں:
روس سے اتحاد کے باعث سے بھارت کیساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، یورپی یونین
برسلز(انٹرنیشنل ڈیسک) یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری اور ماسکو کے ساتھ فوجی مشقوں میں شمولیت، نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی یورپی یونین کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 27 رکنی بلاک دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے اور دفاع جیسے شعبوں میں تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
We just adopted a new EU-India strategy.
It offers stronger cooperation on trade, technology, climate, security and defence.
But there are areas where we disagree. Ultimately our partnership is about defending the rules-based international order.
My press remarks ↓ pic.twitter.com/sJT1iAFdt3
— Kaja Kallas (@kajakallas) September 17, 2025
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس نے ایک نئی حکمتِ عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر ہماری شراکت داری صرف تجارت کے بارے میں نہیں بلکہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کے دفاع کے بارے میں بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی مشقوں میں حصہ لینا، تیل کی خریداری، یہ سب ہمارے تعاون کو گہرا کرنے میں رکاوٹیں ہیں، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپی یونین کو یہ توقع نہیں ہے کہ بھارت، روس سے مکمل طور پر الگ ہو جائے گا اور دونوں فریق اپنے مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
ایران اور ماسکو کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ، بھارت نے اس ماہ روس کی مشترکہ فوجی مشقوں ’زاپاد‘ (مغرب) میں شرکت کی، جن کا کچھ حصہ نیٹو کی سرحدوں کے قریب ہوا۔
بھارت، روسی تیل کا بڑا خریدار بن گیا ہے جس سے اس نے اربوں ڈالر بچائے اور ماسکو کو ایک اہم برآمدی منڈی فراہم کی، کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے روایتی خریداروں نے روس سے خریداری بند کر دی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت اور چین پر بھاری محصولات عائد کرے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
لیکن یورپی یونین کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک برسلز نئی دہلی کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پیچھے ہے، یہ امکان کم ہے، اگرچہ یورپی یونین بھارت میں روسی اداروں کے خلاف اقدامات کر سکتی ہے جیسا اس سے قبل ماسکو پر عائد پابندیوں کے پیکج میں کیا گیا ہے۔
روس پر مؤقف میں ہم آہنگی کی کمی کے باوجود، یورپی یونین اور بھارت بھی 2025 کے آخر تک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل کرنے کے خواہاں ہیں، ایسے وقت میں جب نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
امریکا-بھارت تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں، جب ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بھارتی برآمدات پر محصولات 50 فیصد تک بڑھا دیے تھے، جس کے باوجود بھارت نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی۔
کاجا کلاس کے ساتھ برسلز میں سیفکووچ نے کہا کہ یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور دونوں معاشی طاقتوں کے درمیان تجارت گزشتہ دہائی میں 90 فیصد بڑھ چکی ہے۔
بھارت اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار امید کرتے ہیں کہ اگلے سال کے اوائل میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہو گا۔
پیوٹن اور مودی کی دوستی
اسی دوران، بدھ کو پیوٹن اور مودی نے اپنی دوستی اور گرمجوش تعلقات کو سراہا اور ایک فون کال کی، حالانکہ واشنگٹن کی جانب سے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات پر دباؤ موجود ہے۔
روسی اور بھارتی رہنماؤں نے فون پر بات چیت کی، اس سے ایک روز قبل مودی نے یوکرین تنازع اور محصولات پر ٹرمپ سے بھی بات کی تھی۔
روسی صدر نے فون کال کے بعد ایک سرکاری اجلاس میں کہا کہ بھارت اور روس کے تعلقات انتہائی پُراعتماد اور دوستانہ رہے ہیں۔
نریندر مودی نے ’ایکس‘ پر کہا کہ وہ اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور بھارت یوکرین تنازع کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ اور یوکرین کوشش کر رہے ہیں کہ روس کے اہم توانائی کے ذرائع آمدنی کو ختم کیا جائے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ماسکو کی فوج کو فنڈز فراہم کرتے ہیں اور اسے اپنے حملے جاری رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
Post Views: 3