مصر میں 4 ہزار سال پرانے انسان کے ہاتھ کا نشان دریافت
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
مصر میں 4 ہزار سال پرانے انسان کے ہاتھ کا نشان دریافت ہوا ہے۔
کیمرج یونیورسٹی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے مصر کے ایک قدیم مٹی کے ماڈل پر 4,000 سال پرانا مکمل انسانی ہاتھ کا نشان دریافت کیا ہے، جسے ماہرین نے ’نایاب اور پرجوش دریافت‘ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھاری مشینری کے بغیر اہرام مصر کیسے تعمیر ہوئے، معمہ حل ہوگیا
برطانیہ کے فٹز ولیم میوزیم کی سینیئر ماہرِ مصریات ڈاکٹر اسٹرڈوک نے بتایا کہ ’ہم نے اس سے قبل تابوتوں یا سجاوٹوں پر گیلی وارنش میں انگلیوں کے نشانات دیکھے ہیں، مگر اس طرح کا مکمل ہاتھ کا نشان دیکھنا ایک نادر واقعہ ہے۔ یہ نشان اس کاریگر کا ہے جس نے مٹی کے سوکھنے سے پہلے اسے چھوا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے اس سے پہلے کبھی کسی مصری نوادرات پر اتنا مکمل اور واضح ہاتھ کا نشان نہیں دیکھا۔ اس قسم کی دریافت براہ راست ہمیں اُس لمحے سے جوڑ دیتی ہے جب یہ چیز تخلیق ہوئی تھی، اور اُس شخص سے جس نے اسے بنایا تھا۔ یہی ہماری نمائش کا اصل محور ہے۔ ‘
یہ بھی پڑھیں: مصر، اہرام گیزا کے نیچے پراسرار وسیع و عریض شہر دریافت
تجزیے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ غالباً کاریگر نے لکڑی کی سلاخوں سے ایک ڈھانچہ تیار کیا اور پھر اس پر مٹی چڑھائی۔ یہی مٹی بعد میں سوکھ کر محفوظ ہو گئی، جس کے نیچے یہ ہاتھ کا نشان موجود ہے۔
یہ 4 ہزار سال پرانے ہاتھ کا نشان رواں سال 3 اکتوبر سے شروع ہونے والی ’میڈ اِن اینشنٹ ایجپٹ‘ نمائش میں عوام کے لیے پیش کیا جائے گا، جس کا اہتمام کیمبرج یونیورسٹی فٹز ولیم میوزیم میں کررہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آثار قدیمہ انسانی ہاتھ فٹز ولیم میوزیم کیمرج یونیورسٹی مصر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسانی ہاتھ کیمرج یونیورسٹی ہاتھ کا نشان
پڑھیں:
سستے میں اچھا دکھنے کا شوق: پاکستانیوں نے کروڑوں کے لنڈا کے کپڑے خرید لئے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان میں استعمال شدہ (لنڈا کے) کپڑوں کی درآمد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں صرف گزشتہ مالی سال کے دوران 51 کروڑ ڈالر مالیت کے 11 لاکھ 37 ہزار 510 میٹرک ٹن پرانے کپڑے درآمد کیے گئے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق یہ اضافہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ ہے۔ ملک بھر میں سیکنڈ ہینڈ ملبوسات کی فروخت کا مرکز کراچی ہے، جہاں ہر ماہ چار سو سے پانچ سو کنٹینرز یورپ، امریکا، جاپان اور کوریا سے پہنچتے ہیں۔
کراچی کی مختلف مارکیٹوں اور گوداموں میں اترنے والے ان کنٹینرز سے مال آف لوڈ کرکے چھانٹی کی جاتی ہے۔ یہاں سے ملک بھر کے ہول سیلر کپڑے خرید کر اپنے شہروں میں روانہ کرتے ہیں۔ ہول سیلرز کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی امپورٹ ڈیوٹیز اور ٹیکسز کے باعث اب زیادہ تر سی گریڈ کا مال ہی درآمد ہو رہا ہے۔
پرانے کپڑوں پر حکومت نے پانچ فیصد درآمدی ڈیوٹی، پانچ فیصد سیلز ٹیکس، اور چھ فیصد ودہولڈنگ ٹیکس سمیت دیگر چارجز نافذ کیے ہیں جس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ فی کلو شرٹس 35 سے 50 روپے جبکہ جیکٹس 50 سے 80 روپے تک فروخت ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ دفاتر، تقریبات یا روزمرہ استعمال کے لیے یہ برانڈڈ اور استعمال شدہ کپڑے نئے ملبوسات کے مقابلے میں خاصے سستے اور پائیدار ہوتے ہیں۔
ریٹیلرز کے مطابق یہ کپڑے نہ صرف متوسط طبقے بلکہ دیگر طبقات میں بھی خاصے مقبول ہیں، خاص طور پر سردیوں میں پرانے جیکٹس، کوٹ اور سوئیٹرز کی مانگ میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔
Post Views: 3