سرکاری گاڑیاں واپس منگوانے پر اراکین اسمبلی ناراض ،اعلیٰ افسر کا تبادلہ کروا دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
سوات(نیوز ڈیسک) سوات کی سرزمین ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئی ہے، مگر اس بار وجہ خوش آئند نہیں بلکہ باعث تشویش ہے۔ ڈی جی اپر سوات ڈویلپمنٹ اتھارٹی، عدنان ابرار کو صرف اس “جُرم” پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا کہ انہوں نے اراکین اسمبلی سے سرکاری گاڑیاں واپس مانگنے کی ہمت کی۔ یہ واقعہ پاکستانی بیوروکریسی اور سیاسی طبقے میں بدعنوانی، اختیار کے ناجائز استعمال، اور جوابدہی کے فقدان کی ایک واضح تصویر پیش کرتا ہے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ سوات کے ایک ایم این اے اور ایک ایم پی اے نے کروڑوں روپے مالیت کی دو سرکاری گاڑیاں اپنی ذاتی استعمال کے لیے حاصل کر رکھی تھیں۔ میڈیا میں ان خبروں کے شائع ہونے کے بعد چیف سیکرٹری کی ہدایت پر ڈی جی اپر سوات کو ان گاڑیوں کی واپسی یقینی بنانے کا حکم دیا گیا۔ عدنان ابرار نے حکم پر عمل کرتے ہوئے جب متعلقہ اراکین اسمبلی کو فون کر کے گاڑیاں واپس کرنے کی بات کی، تو انہیں سخت انکار کا سامنا کرنا پڑا۔
اس انکار کے فوراً بعد ہی ڈی جی عدنان ابرار کا اچانک تبادلہ کر دیا گیا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ ان کے عہدے کو خالی کر کے انہیں “افسر بکار خاص” مقرر کر دیا گیا — جو کہ دراصل ایک غیر فعال حیثیت ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف سوالات کو جنم دیتا ہے بلکہ ہمارے پورے گورننس سسٹم پر ایک بدنما داغ بھی بن چکا ہے۔ اس واقعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بعض سیاسی شخصیات قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں، اور جب کوئی افسر قانون پر عمل کروانے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے اس کی سزا ملتی ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ پاکستان میں بیوروکریسی اور ایماندار افسران کو اکثر ایسی ہی صورت حال کا سامنا رہتا ہے۔ لانگ ٹیل کی ورڈز جیسے “سرکاری گاڑیاں واپس لینے کا معاملہ”، “ڈی جی عدنان ابرار کا تبادلہ”، اور “اراکین اسمبلی کا اختیارات کا ناجائز استعمال” — اس مسئلے کے گرد سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو افسر قانون کے مطابق کام کرنا چاہتا ہے، وہی نشانے پر آ جاتا ہے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور عام شہریوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو نظر انداز نہ کریں بلکہ آواز بلند کریں تاکہ آئندہ کسی ایماندار افسر کو اپنے فرض کی ادائیگی پر سزا نہ دی جا سکے۔
اس واقعے کے کئی اثرات ہو سکتے ہیں:
دیگر ایماندار افسران کو خوف ہوگا کہ اگر انہوں نے قانون کی پاسداری کی، تو ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔
سیاسی اثر و رسوخ اور طاقتور حلقے مزید بے لگام ہو سکتے ہیں۔
عوام کا اعتماد حکومتی اداروں اور احتسابی نظام سے مکمل ختم ہو سکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ حکومت، خصوصاً صوبائی اور وفاقی سطح پر فیصلہ ساز ادارے ایسے واقعات پر سخت نوٹس لیں۔ عدنان ابرار جیسے افسران کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے، نہ کہ انہیں سزا دینا۔
Post Views: 7.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اراکین اسمبلی سرکاری گاڑیاں گاڑیاں واپس دیا گیا
پڑھیں:
عوامی خدمت، تیز رفتار ترقی، شفاف گورننس مسلم لیگ (ن) کا اصل ایجنڈا: مریم نواز
لاہور(نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حق سچ کی آواز اٹھانے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے۔ احساس ذمہ داری کے ساتھ آزادی صحافت جمہوریت کی اساس ہے۔ مضبوط جمہوری معاشرے کے لیے صحافت کا آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت متعدد اقدامات کررہی ہے۔ بے گھر صحافیوں کے لئے اپنی چھت کا خواب پورا کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ پنجاب میں صحافی اور صحافت محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہاں ان کے قتل و تشدد کے واقعات نہ ہوئے نہ ہی ہوں گے۔ علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف سے ساہیوال کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز نے ملاقات کی، جس میں عوامی فلاح کے منصوبوں، امن و امان، روڈز کی بحالی، ستھرا پنجاب، صحت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں جاری اصلاحات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی نے پنجاب بھر میں 20 ہزار کلومیٹر طویل سڑکوں کی بحالی، جدید کیتھ لیب کے قیام اور الیکٹرو بسز لانچ کرنے پر وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ عوامی خدمت، تیز رفتار ترقی اور شفاف گورننس ہی مسلم لیگ (ن) کا اصل ایجنڈا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی بحالی صرف انفراسٹرکچر نہیں بلکہ روزگار اور خوشحالی کا ذریعہ ہے۔ ’’ستھرا پنجاب پروگرام‘‘ صرف صفائی نہیں بلکہ ایک نیا کلچر ہے۔ ساہیوال کے اراکین اسمبلی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعلی مریم نواز کی لیڈرشپ میں پنجاب آج پرامن، صاف اور برق رفتاری سے ترقی کرتا صوبہ ہے۔