سرینگر کے پہاڑی علاقے میں بھارتی فوج کا گجر قبائلیوں پر وحشیانہ تشدد
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
متاثرین میں سے ایک لیاقت نے جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے، بتایا کہ اسے گھسیٹ کر کیمپ پر لے جایا گیا جہاں 40 سے زائد فوجیوں کے گھیرے میں اس سے پوچھ گچھ کی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے معصوم کشمیریوں پر تشدد، مار پیٹ اور اجتماعی سزا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے دوران سرینگر کے ایک پہاڑی علاقے میں بھارتی فوجیوں نے خانہ بدوش گجر قبائلیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ذرائع کے مطابق راجوری سے تعلق رکھنے والے محمد لیاقت، محمد اعظم، شوکت احمد اور عبدالقادر کو 50راشٹریہ رائفلز کے اہلکاروں نے سرینگر کے قریب پہاڑی علاقے ڈھگون میں ایک نئے قائم کردہ فوجی کیمپ میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ ایک اعلیٰ فوجی افسر کی سربراہی میں پیش آیا اور تمام گجروں کو علاقے سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں دیں۔ ”دی وائر” سے فون پر بات کرنے والے تین متاثرہ افراد نے بتایا کہ انہیں دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا اور لاٹھیوں سے جانوروں کی طرح مارا پیٹا گیا۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کے دو سپاہیوں نے ہمیں بازئوں سے پکڑ رکھا تھا جبکہ افسر بے رحمی سے پیٹ رہا تھا۔
متاثرین میں سے ایک لیاقت نے جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے، بتایا کہ اسے گھسیٹ کر کیمپ پر لے جایا گیا جہاں 40 سے زائد فوجیوں کے گھیرے میں اس سے پوچھ گچھ کی گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ تم پاکستان جائو۔ مار پیٹ کا نشانہ بننے والے محمد یوسف نے بتایا کہ اس نے فوجی اہلکار سے درخواست کی کہ لیاقت کو چھوڑ دو کیونکہ اگلے ہفتے اس کا آپریشن ہونے والا ہے لیکن افسر نے ان کی ایک نہ سنی اور اسے پیٹتا رہا۔ لیاقت نے بتایا کہ اب میری دوسری ٹانگ بھی ٹوٹ گئی ہے۔میں کھڑا ہو کر باتھ روم بھی نہیں جا سکتا۔ انہیں مجھے اس آزمائش میں ڈالنے کے بجائے گولی مار دینی چاہیے تھی۔
بدھل راجوری سے ایک قبائلی رہنما اور نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی جاوید چودھری نے اس حملے کو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور بھارتی فوجی افسران کے خلاف فوری ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ معصوم لوگوں کے خلاف اس طرح کے مظالم بند ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر قصور واروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو ہم بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ قبائلی گجر روایتی طور پر مویشیوں کو چرانے کے لئے ہر سال جموں خطے سے وادی کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ ہم نے انہیں فوجی کیمپ بنانے میں بھی مدد کی۔ محمد یوسف نے بتایا کہ ہم نے انہیں چائے پلائی اور ان کے کیمپ کے لیے لکڑیاں لے کر گئے۔ اب وہ ہمارے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے گجر اور بکروال برادریوں کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہ پرتشدد کارروائیاں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جاری جبر کی ایک مثال ہے جس سے مقامی آبادی میں خوف پھیل گیا ہے۔
دسمبر 2023ء میں پونچھ میں تین گجر افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ کئی دیگر کو معذور کر دیا گیا۔ رواں سال نومبر میں کشتواڑ میں چار شہریوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور علاقے کے فوجی محاصرے کے بعد سے اس طرح کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جموں میں مقیم سیاسی تجزیہ کار ظفر چودھری نے کہا کہ گجروں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے، انہیں لگتا ہے کہ انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے یا اس طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے جیسے ان کی زندگیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دریں اثناء سرینگر میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ الزامات کی تصدیق کے لیے متاثرین تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم بھارتی فوج کے ترجمان نے میڈیا کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تشدد کا نشانہ نشانہ بنایا نے بتایا کہ کہا کہ
پڑھیں:
پیرو میں 60 مسافروں کو لے جانے والی بس گہری کھائی میں جا گری؛ 15 ہلاک اور 30 زخمی
لاطینی امریکی ملک پیرو میں مسافر بس پہاڑی سڑکوں پر ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوکر کئی فٹ گہری کھائی میں جا گری۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ خوفناک حادثہ پیرو کے دارالحکومت لیما سے دور ایک دشوار گزار علاقے میں پیش آیا۔
دشوار گزار راستوں کے باعث ریسکیو ٹیموں کو امدادی کارروائیوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
بس حادثے میں 30 مسافر زخمی بھی ہوئے جن میں سے 12 کی حالت نازک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ پیرو میں پہاڑی راستوں پر اس نوعیت کے حادثات عام ہیں، جہاں خراب سڑکیں، تیز رفتار ڈرائیونگ اور حفاظتی انتظامات کی کمی حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
گزشتہ برس پیرو میں ٹریفک حادثات کے باعث 4 ہزار کے قریب ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی تھیں۔