نقصان اٹھانے والے سرکاری اداروں نے مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی یعنی جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران مجموعی طور پر 343 ارب روپے کا نقصان کیا، جس سے ان اداروں کے مجموعی نقصانات کا حجم 5.893 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔

وزارتِ خزانہ کی جاری کردہ دو سالہ رپورٹ کے مطابق، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی  یعنی این ایچ اے نے سب سے زیادہ 153.

3 ارب روپے کا نقصان کیا، جس کے بعد اس کے مجموعی نقصانات 1,953.4 ارب روپے تک پہنچ گئے، یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ سڑکوں کے وسیع منصوبوں کے مقابلے میں ٹول محصولات کا ماڈل ناکافی اور غیر پائیدار ہے۔

اسی طرح کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی یعنی کیسکو اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی یعنی سیپکو نے بالترتیب 58.1 ارب اور 29.6 ارب روپے کا نقصان اٹھایا، جن کے مجموعی نقصانات 770.6 ارب اور 473.0 ارب روپے ہو چکے ہیں، یہ بجلی کی تقسیم کے شعبے میں مستقل ناکامیوں اور ناقص وصولی کا عکس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ خسارہ: حکومت نے 600 ارب روپے کےاضافی ٹیکس لگانے کی تیاری کر لی

میڈیا رپورٹس کے مطابق مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی کے دوران متعدد اہم سرکاری اداروں نے بھاری مالی نقصانات برداشت کیے، جو نہ صرف ان اداروں کی کمزور مالی کارکردگی کا مظہر ہیں بلکہ ریاستی معیشت پر بڑھتے ہوئے بوجھ کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔

پاکستان ریلوے نے اس عرصے میں 26.5 ارب روپے کا نقصان کیا، جس کے بعد ادارے کے مجموعی نقصانات 6.7 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، یہ مسلسل مالی خسارہ ریلوے کے بنیادی ڈھانچے، آپریشنل صلاحیت اور انتظامی مسائل پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

اسی طرح، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی یعنی پیسکو کو 19.7 ارب روپے کا خسارہ ہوا، جس سے اس کے مجموعی نقصانات 684.9 ارب روپے ہو گئے۔ یہ اعداد و شمار بجلی کی تقسیم کے شعبے میں پائی جانے والی گہری انتظامی خامیوں اور ناقص بلنگ ریکوری کی عکاسی کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے پاکستان اور روس کے درمیان پروٹوکول پر دستخط

پاکستان اسٹیل ملز بھی اپنی گراوٹ کو نہ روک سکی اور اس نے 15.6 ارب روپے کا نقصان کیا، جس سے اس کے مجموعی نقصانات 255.8 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں، کئی برسوں سے بند یا جزوی طور پر فعال اس ادارے کی بحالی ایک مستقل چیلنج بنی ہوئی ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈیعنی پی ٹی سی ایل نے رپورٹ کردہ مدت میں 7.2 ارب روپے کا نقصان کیا، اور اس کے مجموعی نقصانات اب 43.6 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک وقت میں منافع بخش سمجھا جانے والا یہ ادارہ اب مالی دباؤ کا شکار ہے۔

اسی طرح، پاکستان پوسٹ کو 6.3 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا، جس کے بعد اس کے مجموعی نقصانات 93.1 ارب روپے ہو گئے ہیں، بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی اور نجی کورئیر کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باعث پاکستان پوسٹ کی خدمات کمزور ہو چکی ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت قرض لے کر ریلیف دے رہی ہے، اخراجات میں کمی ناگزیر ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے بھی 4.1 ارب روپے کا نقصان ظاہر کیا جس کے بعد ادارے کے مجموعی نقصانات اب 15.5 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ عوام کو سستے نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کا یہ ادارہ بھی مالی خودکفالت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس کے علاوہ، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی نے بھی 2.3 ارب روپے کا نقصان کیا، جس سے اس کے مجموعی نقصانات 58.2 ارب روپے ہو گئے۔ یہ صورتِ حال توانائی کے پیداواری شعبے میں بھی عدم توازن اور مالی ناکامیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔

یہ تمام اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ کئی عشروں سے نقصان دہ اداروں کی اصلاح کے بغیر انہیں جاری رکھنا قومی خزانے پر ایک بھاری بوجھ بن چکا ہے، جس کے لیے مؤثر اصلاحات اور پالیسی تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان اسٹیل ملز سرکاری اداروں سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نقصان نیشنل ہائی ویز اتھارٹی یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان اسٹیل ملز سرکاری اداروں نیشنل ہائی ویز اتھارٹی یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن ارب روپے کا نقصان کیا اس کے مجموعی نقصانات سرکاری اداروں ارب روپے تک جس کے بعد

پڑھیں:

ای بائیکس رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ

ثمرہ فاطمہ: ماحولیاتی آلودگی میں کمی اور توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے ای بائیکس کی رجسٹریشن اور مالی معاونت کا پروگرام مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔ اگست 2025 میں ریکارڈ 755 نئی ای بائیکس رجسٹرڈ کی گئیں جو کہ ایک ماہ میں رجسٹریشن کا اب تک کا سب سے بڑا عدد ہے۔

حکومت پنجاب کے "گرین کریڈٹ پروگرام" کے تحت ای بائیک خریدنے اور رجسٹر کروانے والے صارفین کو ایک لاکھ روپے کی مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس سکیم کے تحت ای بائیک خریدنے اور رجسٹریشن کے بعد حکومت کی جانب سے پہلی قسط کے طور پر 50 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ صارف کو 6 ماہ میں کم از کم 6,000 کلومیٹر کا سفر مکمل کر کے اس کا ریکارڈ اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ مطلوبہ فاصلہ طے ہونے پر دوسری قسط کی مد میں مزید 50 ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں یعنی مجموعی طور پر ایک ای بائیک استعمال کرنے والے کو 100,000 روپے کی سبسڈی یا مالی مدد ملتی ہے۔

رکن پنجاب اسمبلی علی امتیاز کا نام پی این آئی لسٹ سے نکالنے کی درخواست، جواب طلب

وزیراعلیٰ پنجاب کے گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت اب تک 8 ماہ میں مجموعی طور پر 1,248 ای بائیکس رجسٹر ہو چکی ہیں۔ 

حکومت کا کہنا ہے کہ نہ صرف ای بائیکس کے ذریعے شہریوں کو ایندھن کے خرچ سے بچایا جا رہا ہے بلکہ اس کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی لائی جا رہی ہے۔
 
 

متعلقہ مضامین

  • ٹی بلز کی نیلامی: حکومت نے ایک کھرب سے زائد کی بولیوں میں سے 200 ارب روپے حاصل کرلیے
  • پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 83.6فیصد کے برابر ہونا تشویش کا باعث ہے
  • اقوام متحدہ مالی بحران کا شکار،مجموعی وسائل کم پڑ گئے
  • ای بائیکس رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ
  • سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے عالمی اداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ
  • مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا، وزارت خزانہ کا دعویٰ
  • اگر پاکستان ایشیا کپ سے باہر نکلتا ہے تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟
  • نیپرا نے حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی پر 5 کروڑ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کردیا
  • خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کی نجکاری اور پنشن اصلاحات کیخلاف ملازمین کا سڑکوں پر آنے کا عندیہ
  • سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ میں بڑی غلطیوں کا انکشاف