پاکستان کے سرکاری ملکیتی اداروں (SOEs) کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے، جن کے مجموعی نقصانات 5.9 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں ان نقصانات میں 345 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ مزید برآں، 15 اداروں کی پنشن واجبات 1.7 کھرب روپے تک جا پہنچی ہیں۔

انگریزی روزنامے میں شائع رپورٹ کے مطابق گردشی قرض کا مسئلہ جی ایچ پی ایل، او جی ڈی سی ایل، پی ایس او اور پی پی ایل جیسے مضبوط اداروں کی مالی صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ بین الادارہ قرض 4.

9 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جس میں سے 2.4 کھرب روپے کا تعلق پاور سیکٹر سے ہے۔

جمعہ کو جاری ہونے والی ریاستی اداروں کی ششماہی رپورٹ کے مطابق، قومی شاہراہ اتھارٹی (NHA) نے 153.3 ارب روپے کا سب سے زیادہ نقصان دکھایا، جس سے اس کے مجموعی نقصانات 1,953.4 ارب روپے ہو گئے۔

یہ نقصان ناقابل عمل ٹول ماڈل کی وجہ سے ہوا۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (QESCO) نے 58.1 ارب اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (SEPCO) نے 29.6 ارب روپے کا نقصان ظاہر کیا، جن کے مجموعی نقصانات بالترتیب 770.6 ارب اور 473 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کو 6.7 ارب روپے (مجموعی نقصان 26.5 ارب روپے)، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (PESCO) کو 19.7 ارب (مجموعی 684.9 ارب)، پاکستان اسٹیل ملز کو 15.6 ارب (مجموعی 255.8 ارب)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (PTCL) کو 7.2 ارب (مجموعی 43.6 ارب)، پاکستان پوسٹ کو 6.3 ارب (مجموعی 93.1 ارب) اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو 4.1 ارب (مجموعی 15.5 ارب) کا نقصان ہوا ہے۔

پاور جنریشن کمپنیوں (GENCOs) نے بھی مجموعی طور پر 8.3 ارب روپے کا نقصان دکھایا۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی کو 2.3 ارب (مجموعی 58.2 ارب) روپے کا نقصان ہوا۔

باقی تمام خسارے میں چلنے والے اداروں کا مجموعی نقصان 1,285.96 ارب روپے ہے۔ یوں 15 سے زائد اداروں کے مجموعی نقصانات 5,893.2 ارب روپے ہو چکے ہیں۔

6 ماہ کے دوران بجلی کی ترسیل کرنے والے اداروں (DISCOs) نے سبسڈی نکالنے کے بعد 283.7 ارب روپے کا حقیقی نقصان دکھایا۔ کوئٹہ، پشاور اور حیدرآباد DISCOs سب سے نمایاں رہے۔ یہاں تک کہ وہ ادارے جو سبسڈی سے پہلے مثبت نتائج دکھا رہے تھے (ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ) وہ بھی نقصان میں چلے گئے۔

اس کے علاوہ بجلی کی 20 فیصد تکنیکی و تجارتی کمی ایک مستقل مسئلہ ہے، جو بلنگ، ریکوری اور ترسیلی نظام کی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے 6 ماہ میں تقریباً 300 ارب روپے اور سالانہ 600 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

حکومتی گارنٹی کی رقم 2,245 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، جو پہلے 1,400 ارب روپے تھی۔ ان میں سے زیادہ تر گارنٹیاں PASSCO اور TCP کے لیے دی گئی ہیں۔ ان کی قدر کے تعین کے لیے جدید مالیاتی ماڈلز کو اپنانے کی ضرورت ہے، جیسے کہ آپشن پرائسنگ، کریڈٹ رسک ماڈلز اور مونٹی کارلو سمولیشنز۔

پاکستان کے منافع بخش اداروں نے 457.2 ارب روپے کا مشترکہ منافع ظاہر کیا ہے۔ او جی ڈی سی ایل 82.5 ارب، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی 53.5 ارب، پی پی ایل 49.9 ارب اور نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی نے 37.4 ارب روپے کا منافع ظاہر کیا۔

تاہم، ریاستی اداروں پر مجموعی قرضہ 8.831 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جس میں 1,681 ارب روپے نقد ترقیاتی قرضے، 1,842 ارب روپے غیر ملکی قرضے، 2,808 ارب روپے پرائیویٹ بینکوں اور بانڈز سے لیے گئے قرضے شامل ہیں۔ صرف سود اور رول اوور لاگت ہی 2,000 ارب روپے سے زائد ہو چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ان اداروں کو تیزی سے بدلتی مارکیٹ، پرانی انفراسٹرکچر، قرضوں پر انحصار، سبسڈی، گردشی قرض اور ناقص محصولات کی وصولی کے باعث سنگین مالی خطرات کا سامنا ہے، جو نہ صرف قومی مالیاتی استحکام بلکہ معیشت کے لیے بھی خطرہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے مجموعی نقصانات رپورٹ کے مطابق روپے کا نقصان روپے تک پہنچ کھرب روپے تک ارب روپے کا کے لیے

پڑھیں:

پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی

آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز  کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔

اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔

مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔

رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹی بلز کی نیلامی: حکومت نے ایک کھرب سے زائد کی بولیوں میں سے 200 ارب روپے حاصل کرلیے
  • پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 83.6فیصد کے برابر ہونا تشویش کا باعث ہے
  • پاکستانی کمپنی کو عالمی مارکیٹ سے بیف کے کروڑوں روپے کے آرڈرز مل گئے
  • پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے عالمی اداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ
  • اگر پاکستان ایشیا کپ سے باہر نکلتا ہے تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟
  • ارشد بمقابلہ نیرج: کیا بھارت پاکستان ہینڈشیک تنازع ٹوکیو تک پہنچے گا؟
  • نیپرا نے حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی پر 5 کروڑ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کردیا
  • سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ میں بڑی غلطیوں کا انکشاف
  • فیس لیس کسٹمز سسٹم سے خزانے کو 100 ارب روپے نقصان کی رپورٹ غلط قرار