ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ہزار ارب روپے رپورٹ میں قرضوں کا کے مطابق فیصد تک سال میں گیا ہے گئی ہے
پڑھیں:
گیس کمپنیوں نے قیمتوں میں بڑا اضافہ مانگ لیا، اوگرا میں درخواستیں جمع کروا دیں
پاکستان کی دو سرکاری گیس کمپنیاں، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ نے مالی سال 2025-26 کے لیے گیس کی مقررہ قیمتوں میں نمایاں اضافہ مانگ لیا ہے۔ دونوں کمپنیوں نے مجموعی طور پر 77 ارب روپے سے زائد کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے اوگرا سے درخواستیں جمع کرائی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی ممکنہ قلت کے خدشات پر اوگرا نے وضاحت کردی
اوگرا کو جمع کرائی گئی درخواستوں میں سوئی ناردرن نے فی ایم ایم بی ٹی یو 189 روپے اضافے کی سفارش کی ہے، جس سے اس کی اوسط مقررہ قیمت ایک ہزار 955 روپے 50 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو جائے گی، جو اس وقت ایک ہزار 766 روپے 50 پیسے ہے۔
کمپنی نے مالی سال 2025-26 کے لیے 52.95 ارب روپے کے ریونیو خسارے کا تخمینہ لگایا ہے، جس کی وجوہات میں درآمدی آر ایل این جی کی بڑھتی لاگت، آپریٹنگ اخراجات اور فرسودگی شامل ہیں۔
دوسری جانب سوئی سدرن نے فی ایم ایم بی ٹی یو 125.41 روپے اضافے کی درخواست کی ہے۔ اس کے مطابق اوسط مقررہ قیمت ایک ہزار 783 روپے 96 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی جائے گی جو اس وقت ایک ہزار 658 روپے 55 پیسے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’گیس مہنگی کرو‘، آئی ایم ایف نے پاکستان کو ڈیڈ لائن دیدی
کمپنی نے 24.04 ارب روپے کے خسارے کا ذکر کیا ہے اور اس کی وجوہات میں گیس کی خریداری کی بڑھتی لاگت، مالیاتی اخراجات اور فرسودگی کو شامل کیا گیا ہے۔
درخواست میں پچھلے سالوں کے 34.24 ارب روپے کے غیر وصول شدہ خسارے کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس کے بعد مجموعی اوسط مقررہ قیمت ایک ہزار 962 روپے 55 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ جاتی ہے۔
اوگرا نومبر میں دونوں کمپنیوں کی درخواستوں پر الگ الگ عوامی سماعتیں کرے گی، سوئی ناردرن کے لیے 7 نومبر کو لاہور میں جبکہ سوئی سدرن کے لیے 11 نومبر کو کراچی میں سماعت ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: سوئی ناردرن کا ایک اور جھٹکا، گیس 291 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست
کمپنیوں کا کہنا ہے کہ مجوزہ اضافہ بین الاقوامی خام تیل اور فیول آئل کی قیمتوں سے منسلک گیس لاگت کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہے، اگر اوگرا نے منظوری دے دی تو گیس کے نرخوں میں ممکنہ اضافہ پہلے سے مہنگائی اور توانائی بلوں کے بوجھ تلے دبے گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اوگرا پاکستان سوئی سدرن سوئی ناردرن گیس مہنگی