پاکستان نے 1.5کا کھرب روپے کا قرض قبل از وقت ادا کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( بکامرس رپورٹر )پاکستان نے طویل المدتی استحکام کیلئے مالیاتی نظم و ضبط پر عمل کرتے ہوئے 1.5 کھرب روپے کا عوامی قرضہ قبل از وقت ادا کر دیا ہے۔اس بڑی قبل از وقت ادائیگی سے پاکستان کے مالیاتی اشاریوں میں واضح بہتری آئی ہے، اور ملک کا قرض-بمقابلہ-جی ڈی پی تناسب 2023 میں 75 فیصد سے کم ہو کر 2025 میں 69 فیصد تک آ گیا ہے۔وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بتایا کہ مالیاتی نظم و ضبط کی جانب ایک اور جرات مندانہ اور غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے وزارت خزانہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو واجب الادا 500 ارب روپے کا قرض 2029 کی مقررہ مدت سے پورے چار سال قبل ادا کر دیا ہے۔یہ قبل از وقت ادائیگی، جو ڈیٹ مینجمنٹ آفس (ڈی ایم او) کے ذریعے کی گئی، پاکستان کی قرض انتظامی حکمتِ عملی میں ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان پوسٹ میں 4 ارب روپے کے خلافِ ضابطہ اخراجات کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پوسٹ کے مالی معاملات پر سنگین سوالات اٹھ گئے۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ پاکستان پوسٹ نے 4 ارب روپے سے زائد کی رقم خلافِ ضابطہ طریقے سے خرچ کی، جو کہ سرکاری خزانے میں جمع کروانے کے بجائے مختلف مدات میں استعمال کی گئی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان پوسٹ کے 37 ڈاک خانوں میں یہ بے ضابطگیاں سامنے آئیں، جہاں منی آرڈرز اور ویسٹرن یونین کی ادائیگیوں کے نام پر غیر قانونی اخراجات کیے گئے۔
آڈٹ حکام نے واضح طور پر کہا کہ محکمے کی جانب سے دی جانے والی وضاحتیں درست نہیں اور ان خلاف ورزیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس موقع پر چیئرمین پی اے سی جنید اکبر خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی مزید چھان بین کی ہدایت کی۔
سیکریٹری مواصلات نے اپنی وضاحت میں بتایا کہ ادائیگیوں کا مؤثر نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے ادارے کو یہ قدم اٹھانا پڑا، تاہم ان کے مطابق اب سسٹم کو بہتر کر لیا گیا ہے اور مستقبل میں ایسی بے ضابطگیوں کی گنجائش نہیں رہے گی۔
یہ معاملہ سرکاری اداروں میں شفافیت اور جوابدہی کے حوالے سے ایک بار پھر خدشات کو جنم دے رہا ہے، اور اس پر آئندہ اجلاسوں میں مزید پیش رفت متوقع ہے۔