پاکستان، آذربائیجان سرمایہ کاری معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
4 جولائی 2025پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری معاہدہ محض ایک مالیاتی دستاویز نہیں ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد و اخلاص اور امکانات اور ان پر عمل پیرا ہونے کا ایک مالی ذریعہ ہے۔یہ امکان اب حقیقت کا روپ اختیارکرنے جا رہا ہے کہ پاکستان کے لیے وسطی ایشیا تک رسائی میں آذربائیجان ایک گیٹ وے بن سکتا ہے۔
گوادر بندرگاہ سے آذری تیل اور کارگو ریل، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو خطوں سے نکال کر عالمی وسعت دے سکتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب دنیا بدل رہی ہے، نئے روٹس، نئے راستے، نئی منزلوں کا خواب دیکھ کر اس کی تعبیر پانے کے لیے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور آذربائیجان کی دوستی اور اس میں مالیاتی سرمایہ کاری کی آمیزش دراصل امن، ترقی اور اخوت کے رنگوں کو سنوارنے کی کوشش ہے۔
دو ارب ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ پاکستانی معیشت میں توانائی کے شعبے کو مزید توانا کرنے کا سبب بنے گا۔ زراعت کے شعبے پر بھی توجہ دی گئی ہے اور تعمیرات کے شعبے میں دونوں ملکوں کا مالی تعاون پاکستان تعمیری شعبے کو مضبوط تر بنائے گا۔ گوادرکی بندرگاہ آذربائیجان کے لیے بحیرہ عرب تک رسائی کا گیٹ وے بن سکتا ہے۔ اس وقت باہمی تجارت کا حجم 30 ملین ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ چند سالوں میں 500 ملین ڈالر سے بھی تجاوز کرسکتی ہے، اگرچہ 2 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، لہٰذا 500 ملین سے زائد تجارت ہو سکتی ہے۔
آذربائیجان کی آزادی 1991 میں روس سے جب ہوئی تو پاکستان نے اپنے برادر ملک کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائی اور اولین ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا اور چند سالوں کے بعد 1996 میں ایک دفاعی اور تجارتی معاہدہ ہوا تھا۔ 2002 سے 2005کے دوران کئی MOUS پر دستخط ہوتے رہے اور دونوں ملکوں نے مشترکہ وزارتی کمیشن بھی قائم کر لیا تاکہ اقتصادی اور صنعتی تعاون پر پیش رفت کی جا سکے۔
2010 میں ویزا فری اور آسان ویزا پالیسی پر بھی مذاکرات ہوئے تاکہ کاروباری افراد کے لیے آسانیاں پیدا کی جاسکیں، اگر آذربائیجان کے قیام سے بھی اس بات پر عملی کوشش شروع کر دی جاتی کہ دونوں ملکوں کو ریلوے نظام براستہ افغانستان منسلک کردیا جائے تو جلد ہی کاروباری افراد کے لیے بہت زیادہ مواقعے پیدا ہو جائے۔ مگر افغانستان کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ پھر اگلے چند سال تک دفاعی تعلقات کو بڑھایا گیا اور چند سال قبل توانائی سے متعلق معاہدہ بھی ہوا۔ لیکن افغانستان کے حالات کچھ تکنیکی معاملات اور مالیاتی مسائل کے باعث مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا۔
آذربائیجان ان ملکوں میں سے ایک ہے جس نے کھل کر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیا اور دیگر معاملات میں بھی ہر فورم میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ماضی میں جتنے معاہدے کیے گئے ان میں سے بعض پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بعض معاملات سست روی کا شکار رہے، لہٰذا اب جو معاہدہ ہوا ہے امید ہے کہ ماضی کی کچھ خامیوں کو سامنے رکھ کر سست روی کی وجوہات کا خاتمہ کرکے آگے کی طرف تیزی سے بڑھنے کے مواقع پیدا ہوں گے۔
دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ باہمی تجارت کو 2 ارب ڈالر تک لے کر جائیں گے۔ اس معاہدے کے بعد یہ ممکن ہے کیونکہ دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں جیسے ایل این جی، پٹرولیم مصنوعات، باسمتی چاول اور دیگر معاملات میں اب تجارت بڑھے گی۔ خاص طور پر افغانستان میں حالات کی بہتری کے ساتھ باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا۔
بصورت دیگر پاک روس ریلوے نظام جوکہ ایران کے راستے سے ہوتے ہوئے روس کے سرحدی شہر تک جائے گا اس کے ذریعے بھی دونوں ملکوں کے تاجروں کو موقعہ ملے گا کہ وہ باہمی تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔دونوں ممالک مختلف بین الاقوامی فورمز میں جیسے اقوام متحدہ ہو یا او آئی سی جسے اب اوہ آئی سی بھی کہا جا رہا ہے وہاں بھی ایک دوسرے کے موقف کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
اب جو سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا گیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اب وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو اولین ترجیح دے۔ اگر افغانستان سے ہمیں محفوظ راستہ مل جاتا ہے یا ایران سے ہم وسط ایشیائی ممالک کے خطے میں داخل ہو جاتے ہیں، اس کے کئی ذرایع ہیں، بذریعہ ریل اور بائی روڈ بھی ایسی صورت میں پاکستان اور مختلف وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان باہمی تجارت میں تیزی آئے گی اور پاکستان ان ملکوں کو گوادر تک رسائی دے کر اپنے لیے ٹرانزٹ فیس اور دیگر مدوں کے تحت کافی رقم حاصل کر سکتا ہے۔ اب یہ ہمارے معاشی حکام پر منحصر ہے کہ وہ ان تمام معاملات کو ماضی کی سست روی سے نکال کر کس طرح تیز رفتار پٹری پر ڈال سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرمایہ کاری باہمی تجارت دونوں ملکوں کے درمیان ارب ڈالر کے لیے
پڑھیں:
غیر ملکی سرمایہ کاری میں پاکستانی بیوروکریسی اور ریگولیٹرز کی رکاوٹیں باعث تشویش: محمد اظفر احسن
معروف کاروباری رہنما اور سابق وزیر مملکت محمد اظفر احسن نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری سنجیدہ خطرات سے دوچار ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستانی بیوروکریسی اور ریگولیٹری اداروں کا غیر لچکدار اور منفی رویہ ہے۔
اظفر احسن کے مطابق سعودی حکومت اور نجی سرمایہ کار پاکستان میں دس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں، مگر کے-الیکٹرک میں سعودی گروپ ال جومیع کو درپیش مسائل حل نہ ہونے کے باعث اُن کے اعتماد کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم پاکستان کی اعلیٰ سطحی یقین دہانیوں کے باوجود ال جومیع گروپ کے مسائل حل نہیں ہو سکے، جس کے باعث سعودی حکومت اور سرمایہ کاروں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
اظفر احسن نے کہا، "جب تک حکومت ال جومیع گروپ کے ساتھ انصاف نہیں کرے گی اور کے-الیکٹرک میں ان کی سرمایہ کاری کے مسائل حل نہیں ہوں گے، مزید سعودی سرمایہ کاری ممکن نہیں۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر سعودی سرمایہ کار پیچھے ہٹتے ہیں تو پاکستان کی حیثیت بطور غیر ملکی سرمایہ کاری کے پرکشش ملک کے ختم ہو جائے گی، جو معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔
اظفر احسن نے بتایا کہ سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک نے پاکستان میں تعینات سفیر احمد فاروق سے ملاقات میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ال جومیع گروپ کو پاکستان میں درپیش مسائل پر سخت نوٹس لیا۔
انہوں نے کہا، "یہ معاملہ اب صرف کاروباری نہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی حساس بن چکا ہے۔ اگر ہم سعودی شراکت دار کو اعتماد نہیں دے سکتے، تو باقی دنیا کے سرمایہ کاروں کو کیسے مطمئن کریں گے؟”
اظفر احسن کے مطابق ال جومیع کے ساتھ ناانصافی کا عالمی سطح پر منفی پیغام جا رہا ہے، جس سے پاکستان کا نجکاری پروگرام بھی بدنام ہو رہا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سرمایہ کاروں کے فیصلے ہفتوں میں نہیں بلکہ دنوں میں کرے، تاکہ اعتماد بحال ہو۔
"پاکستان کو ایک محفوظ، منصفانہ اور قابلِ اعتبار سرمایہ کاری کا ماحول دینا ہوگا، ورنہ عالمی سرمایہ کاروں کی نظر میں ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہوگی،” اظفر احسن نے انتباہ کیا۔
اشتہار