Express News:
2025-11-04@04:42:16 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT

غزل
کچھ اس طرح سے وہ حجت تمام کرتے ہیں
بریدہ سر کو بھی جھک کر سلام کرتے ہیں
کبھی تو گھر میں خموشی کا راج ہوتا ہے
کبھی کبھی سبھی کھل کر کلام کرتے ہیں
بقایا جتنی رعایا ہے خیر مانگتی ہے
بغاوتوں کے اشارے غلام کرتے ہیں
ہمارے اپنے مسائل ہیں جس وجہ سے میاں
تری طلب کے تقاضے تمام کرتے ہیں
کبھی جو دل ہو تو آنا تمہیں دکھائیں گے
فقیر کیسے کوئی اہتمام کرتے ہیں
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)

غزل
ہر طرف ہجر کی خوشبو سی مسلسل ہے میاں 
باغ میں خوف سے لگتا ہے کہ جنگل ہے میاں 
بے بہا اپنی محبت کو جتانے والے!
یہ علاقہ تو مری آنکھ سے جل تھل ہے میاں 
آنکھ میں اشک ہیں چہرے پہ اداسی کے نشاں
اب بتاؤکہ مرا ہجر مکمل ہے میاں 
باغ اور دشت دکھائی تمہیں دیں گے، لیکن
میرے اندر کوئی دریا ہے نہ بادل ہے میاں 
اس کی تصویر دکھانے کے لیے آیا ہوں 
وہی منظر جو تری آنکھ سے اوجھل ہے میاں 
مجھ کو یہ بات مرے دل نے بتائی ہے سعیدؔ 
زندگی، موت کی بیکار سی دلدل ہے میاں 
(مبشر سعید۔ ملتان)

غزل
لذتِ لمس میں بدلاؤ نہیں بنتا تھا 
وصل کی رات تھی ٹھہراؤ نہیں بنتا تھا
جن کو آنے پہ بہت پھول دیے تھے تم نے 
انکے جانے پہ بھی پتھراؤ نہیں بنتا تھا
یہ سخاوت تھی کہ ہم چھو تو سکے تھے اسکو 
ورنہ آنکھوں کا کوئی بھاؤ نہیں بنتا تھا
ہم اگر نرم رویے کے نہیں تھے قابل 
اس قدر تلخ بھی برتاؤ نہیں بنتا تھا 
میں نے دریا تجھے بخشی تھیں زمینیں اپنی 
میرے گھر تک ترا پھیلاؤ نہیں بنتا تھا
جانے کیا راز تھا تم مجھ سے ملے تھے عابد
پھول کا سنگ سے ٹکراؤ نہیں بنتا تھا
(علی عابد۔ بھکر)

غزل
یہ تتلیوں، خوشبوؤں، گلابوں کے استعارے نہیں ملیں گے
کہیں بھی تم کو محبتوں کے یہ شاہ پارے نہیں ملیں گے
خدا نے ہم کو بنا کے شاید یہی مقدر میں لکھ دیا تھا
سہارا سب کا بنیں گے لیکن ہمیں سہارے نہیں ملیں گے
یہ بارشوں کا عجیب موسم ہمارے اندر اتر رہا ہے
ملے گی رم جھم پر آسمانوں پہ ابر پارے نہیں ملیں گے
جو دل یہ چاہے تو حسبِ توفیق اپنا غصہ نکال لینا
ہمارے ہونٹوں پہ کوئی شکوے تمہارے بارے نہیں ملیں گے
نہ جانے کیونکر یہ دونوں اک ساتھ ایک مدت سے چل رہے ہیں
اگرچہ ان کو خبر بھی ہے کہ یہ دو کنارے نہیں ملیں گے
وہ جن کے آتے ہی پانیوں میں مچلنے لگتا تھا چاند خود بھی
تمہیں کبھی اب وہ دونوں سائے ندی کنارے نہیں ملیں گے
(ڈاکٹر اظہر کمال خان۔ پاکپتن شریف)

غزل
زخم جو بھی ملتے ہیں 
خامشی سے سہتے ہیں 
اس کو دیکھنا ہو جب 
چاند کو ہی تکتے ہیں 
دور دور رہنے سے 
فاصلے سلگتے ہیں 
اس کی یاد کے تارے 
رات میں نکلتے ہیں 
ہے جو بے خبر ہم سے 
ہم اسی پہ مرتے ہیں 
کچھ نہیں وفا عامرؔ  
لوگ بھی بدلتے ہیں 
 (محمد عامر نوری۔پبی، نوشہرہ)

غزل
اب اس قدر بھی میسر نہیں کسی کے لئے
زرا سا وقت غنیمت ہے شاعری کے لئے 
ہر ایک سمت اداسی کلام کرتی ہے
تو گویا شور ضروری ہے خامشی کے لئے
حسین نور تھے اور نور نے چمکنا تھا
وجود شام ضروری تھا روشنی کے لئے 
مرے لہو میں سخاوت ہے میرے پرکھوں کی
میں تجھ سے بھیک نہ مانگوں گا زندگی کے لئے
تمہارا عشق مرے درد کی کہانی ہے
یہ ابتدا بھی ملی مجھ کو آخری کے لئے
(سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن)

غزل
میں عزت اس لیے اس پیڑ کی نہیں کرتا 
کبھی وہ کرتا ہے سایہ کبھی نہیں کرتا 
لگاتا ہوگا کسی کو گلے محبت سے 
ہمارے ساتھ تو وہ بات بھی نہیں کرتا 
کسی کسی کو ہی دیتا ہے لمس کی حدت 
ہر ایک سوٹ کو وہ استری نہیں کرتا 
اداس رہتا ہوں ہفتے کے ساتوں دن مرے دوست 
میں اپنے کام سے چھٹی کبھی نہیں کرتا 
میں اور کام بھی لیتا ہوں مہرفام ؔاس سے 
مرا چراغ فقط روشنی نہیں کرتا
(مہر فام۔ میانوالی)

غزل
گاؤں کے لوگ شہر میں بسنے کو آگئے
شاید کوئی مزہ تھا جو چکھنے کو آگئے
پالا تھا آستین میں یاروں کو پیار سے
موقع ملا انھیں تو وہ ڈسنے کو آگئے
اک یاد کا عذاب کہ سر سے ٹلا نہیں
پتھر پہ اپنے سر کو پٹخنے کو آگئے
شیشے نے اپنا کام دیانت سے تھا کیا
بد شکل لوگ اس سے الجھنے کو آگئے
دنیا ہے اک شراب اثر دار ہے بہت
تھوڑی سی پی کے ہم تو بہکنے کو آگئے
منزل تھی خوش نصیب کی آمد کی منتظر
منزل سے پہلے رہ کو بدلنے کو آگئے
تحسین جان حق پہ لٹانے کے واسطے
لو ہم کفن لپیٹ کے لڑنے کو آگئے
(سید تحسین عباس گوہر۔ اوچ شریف)

غزل
مری نگاہ میں تیرا کوئی جواب نہیں 
کسی کے خواب نہ دیکھوں جو تیرے خواب نہیں 
نگاہ شوق سے شکوہ نہیں کوئی بھی مجھے 
تمہارے حسن کی واللہ کوئی تاب نہیں 
اگر چہ ننگ کا باعث ہے بے لباسی مری
مگر کرم ہے خدا کا کہ بے حجاب نہیں 
پلک جھپکنا اوائل میں مجھ کو لگتا تھا 
 کہ یہ عذاب بھی ایسا کوئی عذاب نہیں 
تمہیں تو خیر کبھی بھی نہ تھا مگر اس بار 
بچھڑنے والے مجھے بھی کچھ اضطراب نہیں 
اسی کو رتبہ ملا ہے جو ہاتھ آیا نہیں 
وہ ہر جگہ ہے کہیں بھی جو دستیاب نہیں 
نگاہ بھر کے اسے دیکھ بھی نہیں سکتے 
کہ آفتاب کبھی مثل ماہتاب نہیں 
کسی کو ہم سے اگر ہو تو ایلیائی ہو 
ہمیں کسی سے کسی طور اجتناب نہیں
(احمد فراز ایلیائی۔ جھنگ)

غزل
رحمتِ حق جو اک گھڑی نہ رہے
پھر تو کوئی ولی، ولی نہ رہے
شیخ کے بس میں ہی نہیں ورنہ
ایک بھی شخص جنّتی نہ رہے
آپ دیکھیں جو تلخیاں کچھ دن
پھول چہرے پہ تازگی نہ رہے
ہم کہاں جا کے چین ڈھونڈیں گے
گر مقدّر میں وہ گلی نہ رہے
یہ تو شیطان کی تمنّا ہے
کوئی دنیا میں متّقی نہ رہے
جس نے مارا ہے پیاس سے مضطرؔ
اُس کے حصّے میں تشنگی نہ رہے
(فیصل مضطر۔چڑہوئی، آزاد کشمیر)

غزل
سورج نکلا صبح ہوئی ہے
دھوپ زمیں پر پھیل رہی ہے
رخسارِ گل پر پڑی شبنم
پھر نیلم کی سی چمکی ہے
شاخِ سرسوں آج صبا سے
کیسے جھک کر دیکھ ملی ہے
چھوڑ نشیمن نکلے طائر
دہقاں کی بھی دوڑ لگی ہے
ابا پانی بھر کر لائے
امّاں آٹا گوند رہی ہے
اٹھ جا ،اٹھ جا ،اٹھ جا احمدؔ
دن آیا ہے رات گئی ہے
(فراز احمد فراز۔ کنجروڑ، نارووال)

غزل
صحرا مزاج صرف یہاں کیکٹس نہیں 
دل بھی کھلا ہمارا برس ہا برس نہیں
پینا پڑے گا دوست اِسے پھونک پھونک کر
یہ عشق گرم دودھ ہے گنے کا رس نہیں
ظالم نے اس کو ترس ہی باندھا ہے سب جگہ
اُس کو کبھی بھی آیا ترس پر ترس نہیں
وہ تیس کے قریب جنم دن منا چکی 
عمر اس کی پوچھیے تو اٹھارہ برس نہیں
الجبرۂ حیات نہیں دل سے پڑھ سکا 
اس میں مرا گریڈ تبھی اے پلس نہیں
اب کارِ دلبری میں بھی پہلے مزے کہاں 
سنتا ہوں ایک ہاں کے لیے آٹھ دس نہیں 
(احمد زوہیب۔ کراچی)

تیرہ 
جو میسر ہے اُسی شے کی ضرورت کم ہے
حسن والوں کی مرے شہر میں عزت کم ہے
میں نے جو جرم کیا ہے وہ مرے اندر ہے
اور وہ جرم بتانے کی بھی ہمت کم ہے
اُس جگہ بولنا معیوب سا لگتا ہے مجھے
جس جگہ پر بھی مری بات کی وقعت کم ہے
سات لوگوں کی کفالت مرے سر ہے شافی
کمسنی میں مجھے جینے کی اجازت کم ہے
(بلال شافی۔ جڑانوالہ، فیصل آباد)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بنتا تھا نہیں ملیں گے نہیں کرتا کرتے ہیں بھی نہیں کو ا گئے ہے میاں بھی نہ کے لئے نہ رہے

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • 47فیصد پاکستانیوں نے کبھی ٹرین کا سفر نہیں کیا، سروے میں انکشاف
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • سی پیک فیز ٹو کا آغاز ہو چکا، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک سے تعلق نہ رکھنے کی شرط نہیں لگائی، احسن اقبال
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں شاہ رُخ خان جیسا دکھائی دیتا ہوں، ساحر لودھی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • پنجاب بدستور سموگ کی لپیٹ میں، گوجرانوالہ آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر آگیا
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان