Daily Sub News:
2025-09-19@19:31:45 GMT

“کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ”

اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT

“کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ”

“کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” WhatsAppFacebookTwitter 0 4 August, 2025 سب نیوز

تحریرعنبرین علی

موسمیاتی تبدیلیوں نے اسوقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،مگر پاکستان میں یہ صورتحال اب خطرناک حد تک تجاوز کر گئی ہے ۔مون سون بارشوں کا شدید ہونا اور اسی دوران کلاؤڈ برسٹ کے واقعات کا مختلف مقامات پر رونما ہونا ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے بلکہ اب تو انسانی زندگیاں بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہیں ۔۔کلاؤڈ برسٹ کا ذکر ہو ہی رہا ہے تو سب سے پہلے آپکو بتا دوں کے آخر یہ ہے کیا ؟ کلاؤڈ برسٹ کا ماحول سے خاصا گہرا تعلق ہے جس میں مختصر وقت میں محدود علاقے پر شدید بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش اتنی شدید ہوتی ہے کہ زمین سنبھال نہیں پاتی اور نتیجہ ہوتا ہے اچانک سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، اور جانی و مالی نقصان۔جب آسمان اپنی پوری طاقت سے برستا ہے، تو زمین پر ہر چیز بہنے لگتی ہے یہی ہے کلاؤڈ برسٹ۔”کلاؤڈ برسٹ اُس وقت ہوتا ہے جب گہرے بادلوں میں نمی شدید حد تک جمع ہو جاتی ہے اور ایک ہی وقت میں برس پڑتی ہے۔
اکثر یہ تب ہوتا ہے جب پہاڑی علاقوں میں گرم اور مرطوب ہوا ٹھنڈی ہوا سے ٹکراتی ہے۔مثال کے طور پر گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، شمالی بھارت، نیپال اور ہمالیائی علاقے اس سے اکثر متاثر ہوتے ہیں۔اور اس مرتبہ پاکستان میں بھی مون سون کے دوران کلاؤڈ برسٹ ہوا جسمیں اسلام آباد کا ماڈل ولیج سید پور بھی شامل ہے جہاں کلاؤڈ برسٹ ہونے سے شدید سیلاب آیا اور خاصا نقصان بھی ہوا ۔

اب آتے ہیں کلاؤڈ برسٹ کی وجہ کی طرف کی یہ آخر ہوتا کیوں ہے ؟کیا اسباب ہیں ؟اس وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ،ویسے ویسے کلاؤڈ برسٹ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔اس سال اور اس سے پچھلےسال ہم نے دیکھا کہ گرمی کے ریکارڈ بری طرح ٹوٹے ہیٹ ویو کا بھی سامنا کیا نتیجہ یہ ہوا کہ اب نارمل گرمی کی بات کہیں ماضی میں کھو گئی ۔موسم شدت اختیار کر گیا اسلیے جب مون سون شروع ہوا تو زمینی ہیٹ اس سے قبل اس قدر جمع ہو چکی تھی کہ اسکے بعد متعدد واقعات جن میں ژالہ باری کا شدید ہونا اور پھر کلاؤڈ برسٹ شامل ہے۔دوسری وجہ کلاؤڈ برسٹ کی یہ ہے جنگلات بے جا کاٹے جا رہے ہیں حال ہی میں گلگت میں دس لاکھ سے زائد درخت کاٹنے کی منظور دی گئی پھر اگر اسلام آباد میں نظر دوڑائیں تو یہاں تو ہے ہی کنکریٹ کا جنگل ،اس کے علاوہ بھی پورے ملک میں شجر کاری مہم کی اشد ضرورت ہے ۔اسکے علاوہ پہاڑوں میں سڑکیں اور عمارتیں زمین کو غیر مستحکم کرتی ہیں۔اچانک سیلاب اور دریا میں طغیانی ،سڑکیں، پل، گھر بہہ جانالینڈ سلائیڈنگ اور زمینی کٹاؤفصلیں تباہ، پانی کی آلودگی
انسانی جانوں کا نقصان، خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ سب اسی وجہ سے ہیں ۔

اب چلتے ہیں حالیہ واقعات کی طرف جن میں گلگت بلتستان کئی دیہاتوں میں اچانک سیلاب، دریا کے رُخ بدل گئےناران، کالام، سوات: سیاح پھنس گئے، سڑکیں بہہ گئیں ۔

کلاؤڈ برسٹ کے واقعات زیادہ تر ریکارڈ میں نہیں مگر گوگل پر سرچ کریں تو مختلف ویب سائٹس کے مطابق اب تک دو ہزار ایک سے دو ہزار پچیس تک چھ بار کلاؤڈ برسٹ کے واقعات ہوئے ہیں دو ہزار ایک میں تئیس جولائی کو اسلام آباد راولپنڈی میں تقریباً 620 ملی میٹر بارش صرف 10 گھنٹوں میں ہوئی جس سے نالا لئی شدید سیلاب زدہ ہوا۔ 61 افراد ہلاک اورہزاروں مکانات تباہ ہوئے۔دو ہزارنو میں کراچی میں تقریبا 245 ملی میٹر بارش صرف 4 گھنٹوں میں ہوئی جس سے شہر میں شدید سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ۔ انتیس جولائی دو ہزار دس میں رسالپور / پشاور میں چوبیس گھنٹوں میں 274–280 ملی میٹر بارش سے شدید سیلاب اور تباہی ہوئ۔اگست دو ہزار گیارہ میں سندھ میں 176–350 ملی میٹر بارش سےکئی اضلاع میں ریکارڈ سطح کی بارشیں، بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی،جولائی دو ہزار اکیس میں اسلام آباد میں تقریبا 116 ملی میٹر بارش ایک کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے ہوئی دو افراد ہلاک، شہری سیلاب کی زد میں آئے۔اور رواں سال گلگت ،بلتستان،بابو سر ٹاپ،میں بہت سی سڑکیں بند اور ہلاکتیں ہوئیں۔

“کلاؤڈ برسٹ صرف آسمانی قہر نہیں، بلکہ زمین والوں کے رویے کا جواب ہے۔ اگر ہم قدرت کو بگاڑیں گے، تو وہ پلٹ کر جواب دے گی — کبھی بادلوں کی صورت میں، کبھی سیلاب کی شکل میں۔”

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین مسلسل 12 سال سے دنیا کی سب سے بڑی صنعتی روبوٹ مارکیٹ برقرار رکھے ہوئے ہے، چینی میڈیا حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر تحصیلدار فتح جنگ چوہدری شفقت محمود کی مافیا کے خلاف بلا امتیاز کاروائیاں      جب ہمدردی براعظموں کو عبور کرتی ہے جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کلاؤڈ برسٹ

پڑھیں:

سیلاب ،بارش اور سیاست

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل

کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • مون سون کا سلسلہ ختم، آئندہ ہفتے بارش کا کوئی امکان نہیں،تمام دریاﺅ ں میں صورتحال نارمل ہو گئی ہے. پی ڈی ایم اے
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو کلاؤڈ برسٹ کی طرح سزائیں ہوئیں: بیرسٹر گوہر
  • غزہ نسل کشی: “یونی لیور” کی خاموشی پر بین اینڈ جیری کے شریک بانی مستعفی
  • سعودیہ پاکستان جارح کے مقابل “ایک ہی صف میں ہمیشہ اور ابد تک”‘ سعودی وزیر دفاع
  • اسرائیل: اینٹی میزائل ہائی پاور لیزر سسٹم “آئرن بیم” کامیابی سے آزما لیا گیا
  • فلم “731” لوگوں کو کیا بتاتی ہے؟
  • اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں شدید بارش اور لینڈ سلائیڈنگ ‘18 افراد ہلاک
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • مون سون بارشوں کے 11 ویں سپیل کا آغاز، ایبٹ آباد اور دیگر علاقوں میں طوفانی بارش
  • سیلاب ،بارش اور سیاست