ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات اور بارشوں میں تشویشناک کمی کے نتیجے میں بلوچستان ایک بار پھر ممکنہ خشک سالی کے خطرے کی زد میں آ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ڈرپ اریگیشن کا کامیاب آغاز، خشک سالی میں نئی امید

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں مغربی ہواؤں کے زیر اثر معمول کے مطابق بارشوں کا امکان ہے تاہم بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں اس سال معمول سے کم بارشیں ہوں گی جس کے باعث زیر زمین پانی کی کمی اور زرعی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے وہ علاقے جہاں زیرِ زمین پانی پہلے ہی کم تھا اب خشک سالی کے مزید خطرات کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔

چاغی، نوشکی، پنجگور اور گوادر جیسے اضلاع کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے جہاں پانی کی کمی زراعت اور مالداری دونوں کے لیے سنگین چیلنج بن چکی ہے۔

ماہرین کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان کا موسمی نظام واضح طور پر بدل گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جہاں کبھی سردیوں کے آغاز پر پہاڑی سلسلوں پر برف باری اور وقت پر بارشیں ہوتی تھیں وہیں اب کئی مہینے بارش نہ ہونے کے باعث خشک سالی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

مزید پڑھیے: بارشوں اور برف باری میں کمی، کیا بلوچستان میں خشک سالی ہوسکتی ہے؟

کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹ کے مطابق رواں برس بلوچستان میں ماضی کے مقابلے میں بارشیں بہت کم ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح 1000 سے 1500 فٹ تک نیچے چلی گئی ہے جس سے صوبے میں پانی کی قلت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

خالد حسین زیر زمین پانی کی کمی کے باعث فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔

ان کے مطابق پانی کی کمی صرف زراعت ہی نہیں بلکہ روزگار اور دہی معیشت کو بھی متاثر کر رہی ہے اور اگر صورتحال برقرار رہی تو کسانوں کے بڑے پیمانے پر کاروبار چھوڑنے کا خدشہ ہے۔

ماہرِ ارضیات دین محمد کاکڑ نے بلوچستان میں جاری خشک سالی کو موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بارشوں کے نظام میں نمایاں بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔

محمد کاکڑ نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں میں شدید بارشیں اور اربن فلڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن بلوچستان مسلسل بارشوں کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: گوادر میں پانی کا بحران، وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہنگامی اقدامات کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ شمالی اضلاع میں سولر ٹیوب ویل کے ذریعے بے تحاشہ پانی نکالا جا رہا ہے مگر اس کی جگہ دوبارہ بھر نہیں رہی اور ہر گزرتے سال پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے

انہوں نے کہا کہ کبھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں پانی کاریزوں کے ذریعے قدرتی طور پر بہتا تھا اور انہی کاریزوں نے صدیوں تک باغبانی اور فصلوں کو سہارا دیا مگر اب تقریباً تمام کاریزیں خشک ہو چکی ہیں۔

ماہر ارضیات نے کہا کہ اگر پانی کے تحفظ کے لیے فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو وہ علاقے جو کبھی کھیتی باڑی اور باغات کے لیے مشہور تھے آنے والے سالوں میں بالکل بنجر ہو جائیں گے۔

ماہرین اور کسانوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹیوب ویل کے بے تحاشہ استعمال پر پابندی اور نگرانی کی جائے اور واٹر مینجمنٹ پالیسی فوری طور پر نافذ کی جائے۔

یہ بھی پڑھیے: زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے

ماہرین کے مطابق شہریوں میں پانی کے بچاؤ کی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ بلوچستان کی زراعت اور مستقبل نسلوں کو پانی کی شدید قلت سے بچایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان خشک سالی بلوچستان کی خواتین ماحولیاتی تبدیلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان خشک سالی بلوچستان کی خواتین ماحولیاتی تبدیلی بلوچستان میں پانی کی کمی زمین پانی نے کہا کہ خشک سالی کے مطابق میں پانی کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

سائنسدانوں کی نئی دریافت، مکڑی کی انوکھی نسل منظرعام پر آگئی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ساحلی ریتلے ٹیلوں میں سائنس دانوں نے مکڑی کی ایک نایاب اور نئی نسل دریافت کرلی ہے، جسے حیاتیاتی ماہرین ماحولیاتی توازن کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق اس نئی مکڑی کا نام ایپٹو اسٹیچس رامیرازی رکھا گیا ہے، جو کیلیفورنیا اور میکسیکو کے ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ اس نسل کا نام کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی کالج آف سائنس کی ڈین مارٹینا جیزیل رامیراز کے اعزاز میں رکھا گیا۔

تحقیق کی قیادت کرنے والے ماہرِ حشریات پروفیسر جیسن بانڈ (یو سی ڈیوس، شعبہ اینٹومولوجی و نیمی ٹولوجی) کے مطابق یہ مکڑیاں اپنی خوبصورتی اور منفرد طرزِ حیات کے باعث غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ زیادہ تر لوگ مکڑیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں، مگر یہ جاندار ماحولیاتی نظام میں توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

پروفیسر بانڈ نے وضاحت کی کہ یہ مکڑیاں پوری زندگی زمین کے اندر بلوں میں گزارتی ہیں، جہاں وہ اپنے بچوں کی نگہداشت کرتی ہیں، اور ان کی عمر 15 سال سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ نئی انواع صرف دور دراز جنگلات میں نہیں بلکہ ہمارے اردگرد کے عام ماحولیاتی نظام میں بھی موجود ہیں۔

ماہرین کے مطابق کیلیفورنیا کے ساحلی علاقوں میں مکڑیوں کی جینیاتی تنوع کو سمجھنا ان کے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہ نئی نسل سطحِ سمندر میں اضافے، شہری توسیع اور جنگلات میں آگ جیسی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ان نایاب مکڑیوں کے مسکن محفوظ نہ کیے گئے تو ان کے ختم ہونے سے پورے ساحلی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان اس وقت سنگین امن و امان کے بحران سے دوچار ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • ماحولیاتی تبدیلیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، ملیریا اور ڈینگی کے کیسز میں تشویشناک اضافہ
  • سائنسدانوں کی نئی دریافت، مکڑی کی انوکھی نسل منظرعام پر آگئی
  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • گوادر کے قریب معدومیت کے خطرے سے دوچار عربی وہیل کا حیران کن نظارہ
  • ایران میں بدترین خشک سالی، دارالحکومت کو پانی فراہمی کرنے والے ڈیم میں صرف دو ہفتے کا ذخیرہ رہ گیا
  • خطرے سے دوچار ہمپ بیک وہیل کا بڑا گروہ بلوچستان کے ساحل پر نمودار
  • تاریخی خشک سالی، تہران میں پینے کے پانی کا ذخیرہ 2 ہفتوں میں ختم ہوجائے گا
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف