افغان طالبان تشدد کو ’بزنس ماڈل‘ کے طور پر استعمال کررہے ہیں, بریگیڈیئر (ر) راشد ولی
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور سینیئر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) راشد ولی نے کہا ہے کہ طالبان اب تشدد کو ایک ’بزنس ماڈل‘ کے طور پر استعمال کررہے ہیں تاکہ دنیا سے مالی امداد حاصل کریں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کو ہر ہفتے 70 ملین ڈالرز کی امداد دی گئی، مگر یہ رقوم عوام کی فلاح کے بجائے دہشتگرد سرگرمیوں میں صرف ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان پاکستان کے خلاف غیر ریاستی عناصر کو بطور دباؤ استعمال کر رہے ہیں۔ بارڈر کراسنگ اور اسمگلنگ کو وہ تجارت کا نام دیتے ہیں تاکہ اپنی معیشت کو سہارا دے سکیں۔ پاکستان کی افواج نے 1500 سے زائد کراسنگ پوائنٹس کو محفوظ کیا ہوا ہے، مگر افغان سائیڈ پر کوئی کنٹرول نہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے بریگیڈیئر (ر) راشد ولی کہتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا اضطراب بجا ہے کیونکہ جب روز اپنے جوانوں کے جنازے اٹھانے پڑیں تو صبر اور برداشت کی حد تمام ہوجاتی ہے۔
ان کے مطابق افغانستان کی موجودہ حکومت ایک سخت گیر اور ناتجربہ کار سوچ رکھتی ہے، جس کے پاس ریاستی حکمت عملی یا سفارتکاری کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ پاکستان نے ان کے ساتھ مثبت سفارتی روابط کی ہر ممکن کوشش کی، مگر انہوں نے دہشتگرد گروہوں جیسے ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
راشد ولی نے کہا کہ افغانستان کی معیشت کمزور ہے، وہاں کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور صحت کے شعبے میں ایمرجنسی کی کیفیت ہے۔ پاکستان جب دباؤ ڈالنے کے لیے بارڈر بند کرتا ہے تو افغان عوام سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں، مگر طالبان حکومت اپنی روش نہیں بدلتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترکیہ اس عمل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن طالبان کے اندرونی اختلافات، خاص طور پر کابل اور قندھاری دھڑوں کی تقسیم، کسی اتفاق رائے کو ممکن نہیں بننے دے رہی۔ طالبان ٹی ٹی پی پر قابو پانے کو اپنی نظریاتی موت سمجھتے ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) راشد ولی نے ممکنہ سیکیورٹی منظرناموں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان کو شکست ہوئی تو کابل میں ایک نئی مخلوط حکومت قائم ہوسکتی ہے جس میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو لیکن اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کرنے پڑیں گے کیونکہ طالبان کے پاس روایتی فوجی ڈھانچہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس کی طاقت موجود ہے جس کے ذریعے اہداف کو درست نشانہ بنایا جاسکتا ہے، مگر کسی بھی کارروائی میں شہری آبادی کے نقصان سے بچنا ہوگا۔
اندرونی صورتحال پر بات کرتے ہوئے راشد ولی نے کہا کہ پاکستان کے اندر انتہا پسندی ایک سنگین خطرہ ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ایک مذہبی شدت پسند گروہ پر پابندی خوش آئند قدم ہے۔ ان کے مطابق ایسے گروہوں کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے جو مذہب کے نام پر تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ناگزیر ہے، ورنہ یہ شدت پسندی کا عفریت دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی مسائل، بے روزگاری، ناخواندگی اور محرومی نے ایک زہریلا ماحول پیدا کردیا ہے، جس میں انتہا پسندی کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ اگر مذہب کے نام پر لوگوں کو بھڑکایا گیا تو حالات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ مساجد اور مدارس کے نظام کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے، جیسے سعودی عرب، ترکیہ اور ملائیشیا میں ہوتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی پر بات کرتے ہوئے راشد ولی نے کہا کہ پاکستان میں منصوبے تو بہت بن جاتے ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ گورننس کا اصل مطلب ہی عملدرآمد ہے۔ اگر قانون پر عمل نہ ہو تو کوئی بھی شہر یا ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے رول آف لا اور قانون کے نفاذ کے نظام میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کو ہر وقت چوکس رہنا ہوگا۔ بھارتی حکومت داخلی سیاسی مقاصد کے لیے سرحدی شرارتیں کرسکتی ہے، مگر پاکستان کو ہوشیاری سے سفارتی محاذ پر سرگرم رہنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ راشد ولی نے کہا پاکستان کے کہ پاکستان کرتے ہوئے کے لیے
پڑھیں:
چیئرمین ماڈل کالونی ظفراحمدخان دیگر کے ہمراہ کشمیریوںسے اظہاریکجہتی کے لیے ریلی کی قیادت کررہے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251028-02-25