Juraat:
2025-10-30@00:21:19 GMT

پاک افغان مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

پاک افغان مذاکرات

حمیداللہ بھٹی

دوست ممالک پاک افغان قیادت کو اکٹھاتوبٹھاسکتے ہیں لیکن اپنے مسائل کو دونوں ممالک نے خود ہی حل کرناہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قطراورترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے دونوں ممالک کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے، جس سے مستقبل کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوتاہے۔ کیونکہ مذاکرات سے حل طلب مسائل جوں کے توں ہیں جس کی بناپر ایسے خیال کوتقویت ملتی ہے کہ دونوں طرف بداعتمادی کی فضاہے۔ یہ صورتحال خطے کے امن کے لیے ہرگز مثبت پیش رفت نہیں۔ قطرکی میزبانی میں مذاکرات کے پہلے دور میں سیز فائر جاری رکھنے پر اتفاق سے امن کی کچھ امیدبندھی مگر ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والے بے نتیجہ مذاکرات نے مزید توقعات کی جگہ نہیں چھوڑی۔ اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ امن کے حوالے سے اب یقین سے کہناازحد مشکل ہے۔
پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان رجیم کی طرف سے دہشت گردی کی سرپرستی نامنظورہے۔ اِس لیے اُنھیں ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنا ہوں گے مگر اِس کے برعکس طالبان کا موقف غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کرہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں نہ تو اپنے ملک اور عوام کے مسائل کا کچھ احساس ہے اور نہ ہی وہ ہمسایہ ممالک کی بداعتمادی دورکرنے میں سنجیدہ ہیں۔ وہ بظاہر کسی اور ہی ایجنڈے پر عمل پیرالگتے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔ بلکہ افغانستان اورخطے کے استحکام سے متصادم ہے۔ اسی لیے طالبان کے متعلق خدشات میں اضافہ ہورہاہے۔ مذاکرات میں مزید پیش رفت طالبان کے رویے پر منحصر ہے۔ اگر دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھتے ہیں توپاکستان کو خود کارروائی کرنے کا جوازملے گا جس سے افغانستان مزید غیر مستحکم اور غیر یقینی صورتحال کاشکارہوسکتاہے۔
پاکستان کا مطالبہ ہے کہ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلاتفریق اور قابل تصدیق کارروائی کی جائے تاکہ اچھے ہمسایوں اور بھائی بندی پر مبنی تعلقات کو فروغ ملے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مزید لچک دکھاناممکن نہیں رہے گا کیونکہ چار عشروں سے زائد لاکھوں افغانوں کی میزبانی ،افغانوں کو آزادی وخود مختاری دلانے اورتجارتی مراعات دینے کے باوجود طالبان کاپاکستان مخالف عناصر سے گٹھ جوڑ ناقابلِ فہم ہے ۔اسی گٹھ جوڑ نے آج دونوں ممالک کو اِس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ مذہبی وثقافتی رشتوں کے باوجود ہتھیار اُٹھانے کی نوبت آئی جس کی زیادہ ذمہ دار افغان رجیم ہے جونہ توافغان عوام کی حقیقی نمائندہ ہے اورنہ ہی ملک پر مکمل رَٹ رکھتی ہے۔
افغان طالبان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کااعتماد ہر حوالے سے اُن کے لیے اہم ہے ۔یہ پاکستان ہی ہے جو افغانستان کے منجمد اربوں ڈالر واپس کرنے کا دنیا سے مطالبہ کرتا ہے ۔پاکستان کی حدود اور بندرگاہیں افغانستان کے لیے تجارتی حوالے سے ناگزیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی رٹ بھی پاکستان کی مدد سے بہترہو سکتی ہے۔ لیکن دولت کی ہوس نے اُن کی حدِ نظراِس حدتک کم کردی ہے کہ بھارت کے سوادنیا میں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔اسی لیے پاکستان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کی عملداری کے حصوں اورسرحدکو متنازع بنانے کی حماقت کرنے والے افغان یہ بھول جاتے ہیں کہ جوہری پاکستان اِس وقت مسلم اُمہ کی امید ہے ،جسے مقاماتِ مقدسہ کے دفاع کی سعادت بھی حاصل ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کیا جاتامگراِس کی بجائے مسائل پیداکیے جا رہے ہیں اسی لیے ہونے والی دراندازی روکنے کے لیے پاکستان اپنے حفاظتی دستوں کوتحرک میں لانے پر مجبورہواہے۔ مزید افسوسناک امریہ ہے کہ اب بھی طالبان زمینی حقائق کے ادراک سے قاصرہیں ۔
افغان رجیم بضد ہے کہ اُس کی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہورہی اور نہ ہی اُس کی حدودمیں علیحدگی پسند دہشت گردوںیا شدت پسند گروہوں کے ٹھکانے ہیں۔ مگرپاکستان سرحد پار سے ہونے والی دراندازی کے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرچکا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بی ایل اے جیسے علیحدگی پسندوں اور ٹی ٹی پی و داعش جیسے شدت پسندوں کوبھارت کی سرپرستی اور طالبان کی سہولت کاری حاصل ہے مگر قطر مذاکرات میں جب پاکستان نے ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے تقاضاکیا کہ آپ دس ارب روپے دے دیں تو ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحدوں سے دور منتقل کردیتے ہیں جس سے طالبان کی ٹی ٹی پی سے تعاون و ہمدردی بے نقاب ہوگئی۔ مزیدچونکانے کاباعث بھارت سے ایک ارب ڈالر کی امداد لیکر دریائے چترال پر ڈیم بنا کر پاکستان کاپانی روکنے کا فیصلہ کرناہے۔ قبل ازیں ملا امیر متقی اپنے دہلی دورے کے دوران جموں وکشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملا قرار دے چکے ۔مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف بھارتی پراکسی ہیں ۔
یہ صیغہ راز میں نہیں رہاکہ حالیہ پاک افغان جھڑپوں کے دوران اسلحہ و گولہ بارود کے بھارتی ماہرین افغانستان آئے جو روس اور امریکہ کا چھوڑا گیا اسلحہ دوبارہ قابلِ استعمال بنانے میں طالبان کی مددکرتے رہے سوال یہ ہے کہ جنونی بھارتی حکومت جو اسلام اور مسلمانوں کا دنیا سے نام و نشان مٹاناچاہتی ہے، وہ کیوں طالبان پرمہربان ہے؟اِس کا جواب یہ ہے کہ افغانستان کا امن و استحکام یا خوشحالی نہیں بھارت کے پیشِ نظر پاکستان سے نفرت ہے اور دوہمسایہ اسلامی ممالک کو لڑا نابھی اسلام دشمنی ہی ہے جوطالبان سمجھ نہیں پا رہے اور بھارت کا آلہ کار بن کرپاکستان سے اُلجھ رہے ہیں۔ حالانکہ اِس کی اُن میں سکت نہیں ہے ۔بھارت کو افغانوں سے پیار نہیں، اگر ہوتاتو افغان مہاجرین کوپاکستان سے اپنی سرزمین پر منتقل کرلیتا لیکن دولت کی ہوس میں طالبان سمجھ نہیں پا رہے اور پاک افغان عوام کولڑا کر احسان فراموشی پر اُترآئے ہیں۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں سے دونوں ممالک کی عوام میں کدورت ونفرت کی جوخلیج طالبان حماقتوں سے پیدا ہوئی ہے اگر آج وہ اپنی سرزمین ہمسایوںکے خلاف استعمال نہ ہونے دیں تو دونوں ممالک کے تعلقات بہترہوجائیں۔
اسلامی ممالک میں برسرِ پیکار شدت پسند تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،اگر ہوتا تو خلاف ہتھیار اُٹھاکر اسلامی ممالک کوکمزورنہ کرتیں۔ یہ شدت پسند گروہ محض مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیتے ہیں۔ طالبان بھی ایسی ہی قسم ہیں اسی لیے پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں ہمرکاب ہیں۔ قطر،سعودی عرب اور ترکیہ کی کوششوں سے بات چیت کا عمل خوش آئند اور باعثِ اطمنان سہی مگر جب تک طالبان قیات پاکستان مخالف ایجنڈاترک نہیں کرتی تب تک دونوں ممالک میں خوشگواراور برادرانہ تعلقات کا خواب دیکھنامناسب نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: دونوں ممالک پاکستان سے طالبان کی پاک افغان کہ افغان حوالے سے یہ ہے کہ کے خلاف اسی لیے ہے کہ ا ہے اور کے لیے

پڑھیں:

اندازہ تھا مذاکرات کا اختیار کابل کے پاس نہیں، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پہلے ہی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ مذاکرات کا اختیار کابل حکومت کے پاس نہیں ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، طالبان نے بھارت کی پراکسی جنگ شروع کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے، ایک گروپ کی زبانی یقین دہانیوں پر ہم کتنا بھروسہ کرسکتے ہیں۔

پاک افغان سرحد پر دراندازی کی 2 بڑی کوششیں ناکام، 25 دہشتگرد ہلاک

سیکیورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد پردراندازی کی 2 بڑی کوششیں ناکام بنا دیں۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ جب معاہدے کے قریب پہنچتے تو ان کے کابل سے رابطے کے بعد تعطل آجاتا، پہلے دن اندازہ ہوگیا تھا کہ مذاکرات کا اختیار کابل حکومت کے پاس نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب سے افغان طالبان حکومت میں آئے ہیں، ہمارے بچے شہید ہورہے ہیں، کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے بھارت کی پراکسی جنگ شروع کی ہے۔

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے جو ہزیمت اٹھائی ہے، اب وہ کابل کے ذریعے تلافی کی کوشش میں ہے، اسلام آباد کی طرف کسی نے نظر بھی اٹھائی تو ہم آنکھیں نکال دیں گے۔

افغان طالبان سے مذاکرات میں معاملات طے نہیں پاتے تو ہماری اور ان کی کھلی جنگ ہے، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اگر معاملات طے نہیں پاتے تو ہماری افغانستان سے کھلی جنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ چھ بار معاہدہ ہوا، جب کابل فون پر رابطے کرتے پھر آکر لاچاری کا اظہار کرتے، مجھے افغان مذاکراتی وفد سے ہمدردی ہے، وفد نے کافی محنت کی۔

وزیر دفاع نے کہا کہ کابل میں بیٹھے جو تار کھینچ رہے تھے ان کا پتلی تماشا دلی سے کنٹرول ہورہا تھا، ہم پورا ہفتہ افغان طالبان سے مذاکرات کرچکے ہیں۔ ہم نے بہت شفاف مذاکرات کیے، صوبائی مفادات پر کوئی حرف نہیں آنے دیا، پارلیمنٹ اور متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لیں گے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی منتخب حکومت ہے ہمیں ان کا احترام ہے، کوئی سمجھتا ہے کہ ہم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کریں تو ایسا نہیں ہوگا۔ 

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی جنھوں نے طالبان کی حمایت کی ان پر مقدمہ چلنا چاہیے، چاہے وہ دنیا میں ہوں یا نہ ہوں ان کو سزا ملنی چاہیے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ اہل فلسطین کی حفاظت کےلیے کردار ادا کرسکیں تو یہ خوش قسمتی ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • خواجہ آصف: سرحدی خلاف ورزی پر ہم جواب دینے سے نہیں ہچکچائیں گے
  • استنبول، پاک افغان مذاکرات بے نتیجہ، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا عزم دہرایا
  • پاکستان کا استنبول مذاکرات میں افغان طالبان کے غیر سنجیدہ رویے پر شدید تحفظات کا اظہار، دہشتگردی کے خلاف ہر ممکن اقدام کا اعلان
  • پاکستان اور افغانستان برادر ممالک، اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا، محسن نقوی
  • مذاکرات ناکام، پاکستان کا افغان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا اعلان  
  • اندازہ تھا مذاکرات کا اختیار کابل کے پاس نہیں، خواجہ آصف
  • افغان طالبان کا وفد پاکستان کے مطالبات کو پوری طرح تسلیم کرنےکو تیار نہیں: ذرائع
  • استنبول مذاکرات کا تیسرا دور: افغان طالبان کی ٹی ٹی پی معاملے پر ٹال مٹول جاری، ثالث معاہدہ یقینی بنانے کے لیے کوشاں
  • افغان طالبان کا پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں عدم تعاون، ٹرمپ کی ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش