سابق چیئرمین

ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز ،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں اور محدود فضائی حملوں کے بعد دوحہ قطر میں منعقد ہونے والے طویل مذاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا۔اس معاہدہ میں قطر اور ترکیہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔

معاہدے کی تفصیلات اور مکینیزم طے کرنے کیلئے مذاکرات کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔دوحہ مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور آئی ایس آئی کے سربراہ و مشیر قومی سلامتی لیفٹننٹ جنرل عاصم ملک اور افغانستان کی طرف سے وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد اور انٹیلیجنس سربراہ عبد الحق واسع نے شرکت کی۔

سعودی عرب، قطر،ترکیہ ،چین نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے جبکہ امریکہ، روس ،انڈیا اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل نہیں آیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ ضرور کہا ہے کہ مجھے پاک افغان جنگ کے بارے میں معلوم ہوا ہے اس کو رکوانا میرے لئے بہت آسان ہے۔

اس معاہدہ کی خصوصیت یہ ہے کہ افغان گروپس کے مابین ماضی کے زبانی معاہدوں کے برعکس یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ افغانستان نے اپنے حالیہ سابق موقف کے بر عکس پاکستان کے مطالبے پر کسی گروپ کو اپنی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی یقین دھانی کرائی ہے۔

یہ نکتہ پاکستان کے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ ٹی ایل پی اور دیگر گروپ پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کررہے ہیں۔یقینا یہ پاکستان کی ایک سفارتی کامیابی ہے کہ برادر اسلامی ممالک نے پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے افغانستان کو یہ یقین دھانی دینے پر رضا مند کیا۔ اور پہلی بار کسی معاہدے میں برادر اسلامی و دوست ممالک ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے اقدامات کو مانیٹر بھی کریں گے اور کسی خلاف ورزی کے حوالے سے شواہد کے مطابق فیصلہ بھی کریں گے۔

تاہم ماضی کے ریکارڈ کے پیش نظر اس یقین دہانی پر عملدرآمد کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کیونکہ ایک تو افغان حکومت مختلف الخیال گروہوں پر مشتمل ہے اور دوسری طرف افغانستان میں ٹی ٹی پی کے علاؤہ کئی دہشت گروہ سرگرم عمل ہیں جن پر طالبان کا کنٹرول بوجوہ نظر نہیں آتا اور وہ اپنے تئیں کہیں بھی کوئی کاروائی کر سکتے ہیں۔اس لئے پاکستان کو اس سلسلے میں اندرون ملک اور تمام سرحدوں پر سخت مانیٹرنگ جاری رکھنی ہوگی۔انڈیا بھی اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔

اس معاہدے کی بڑی کمزوری ہے کہ فی الحال اس کے مکمل خدو خال واضح نہیں ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے افغانی وزراء معاہدے کے بعد اپنی مرضی کے مطابق بیان بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔انکے وزیر دفاع نے معاہدہ کے بعد کابل میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے کئے جانے والے سوال پر اسے فرضی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر دوحہ میں کوئی بات نہیں ہوئی۔اس کے علاوہ انہوں نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹی ٹی پی کے حوالے سے سوال پر کہا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے اس کی پالیسیوں سے جو بھی اختلاف کرتا ہے وہ اسے دہشت گرد قرار دے دیتاہے۔

اسی طرح یہ امر اہم ہے کہ افغانستان کے اصرار پر قطر نے معاہدے کے حوالے سے جاری پریس ریلیز سے بارڈر کا لفظ ایڈیٹ کرکے اسے دوبارہ جاری کیا ہے جسے طالبان اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان ڈیورنڈ لائن کو بارڈر نہ مان کر پاکستان کے خلاف ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ پاکستان نے تجارتی راہداریاں بند کرکے افغانستان پر دباؤ بڑھایا ہے۔تمام راہداریاں گزشتہ کئی روذ سے بند ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں مال بردار ٹرک اور گاڑ یاں دونوں طرف پھنسی ہوئی ہیں۔

دوسری طرف ا فغانستان نے انڈیا اور آئی سی سی کے زیر اثر اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں منعقد ہونے والی ٹرائنگولر سیریز میں شرکت کرنے سے روک دیا ہے اور پاکستانی بمباری کے نتیجے میں 3 کلب کرکٹرز کی ہلاکت کا الزام بھی لگایا ہے۔جسکی پاکستان نے تردید کی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستان نے سفارتی سطح پر وہ تمام راستے اختیار کیے جو کسی ہمسایہ ملک سے تنازع کے حل کے لیے ممکن ہوتے ہیں۔

کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے 180 سے زیادہ مرتبہ تحریری احتجاجی مراسلے افغان حکومت کے سپرد کیے۔ دس مرتبہ مشترکہ رابطہ کمیٹی کے اجلاسوں میں معاملہ اٹھایا۔ دو سو سے زیادہ بار آئی ایس آئی کے نمائندوں نے کابل جا کر افغان حکام سے بات چیت کی۔آٹھ سو سے زائد بار سفارتی سطح پر باضابطہ احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ تین مرتبہ چین کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے۔ پانچ مرتبہ پاکستانی وزرائے خارجہ کابل جا کر اعلیٰ حکام سے ملے۔

پاکستان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کو پناہ نہ دے اور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں سے روکے۔ اس کے جواب میں افغان حکام مختلف موقف اختیار کرتے ہوئے اس مطالبے کو پورا کرنے کی یقین دھانی دینے سے گریز کرتے رہے۔اپنی حکومت کے آغاز میں تو وہ اپنی سر زمین کو کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم کا اظہار کرتے رہے لیکن بعدازاں موقف تبدیل کرتے ہوئے کبھی کہا گیا کہ ہم ان پر قدغن نہیں لگا سکتے کیونکہ وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔کبھی کہا گیا کہ ٹی ٹی پی کا وجود تو افغانستان میں ہے ہی نہیں، کبھی کہا گیا کہ یہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کا اندرونی معاملہ ہے۔ اور اسی دوران چار برسوں میں افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر ایک ہزار سے زائد دہشت گرد حملے ہوئے۔ جن میں 3800 سے زیادہ پاکستانی شہری اور اہلکار شہید ہوئے۔

تاہم پاکستان کے حالیہ فضائی حملوں اور سخت دفاعی اقدامات کے بعد بالآخر طالبان حکومت کو مجبوراً 48 گھنٹے کی جنگ بندی کی اپیل کرنی پڑی۔پاکستان نے اپنی جوابی کاروائی پوری کرنے کے بعد جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کردی جس کے بعد دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان رجیم نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث گروہوں کو روکنے کا وعدہ کیا۔

معاہدے میں مزید طے پایا ہے کہ سرحدی علاقوں میں مکمل امن قائم رکھا جائے گا اور دونوں ممالک براہِ راست رابطے کے لیے مشترکہ سرحدی دفتر قائم کریں گے۔ معاہدے کے مطابق چمن، تورخم اور غلام خان جیسے حساس سرحدی علاقوں میں فائرنگ، دراندازی اور اشتعال انگیزی کو فوری طور پر بند کیا جائے گا۔ ایک مشترکہ رابطہ مرکز (Joint Border Coordination Office) دونوں ممالک کے فوجی افسران کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنے گا تاکہ کسی بھی واقعے کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔

طالبان حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ایسے گروہ کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی جو پاکستان کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد عناصر کے خلاف پاکستان کے ساتھ معلومات کے تبادلے اور مشترکہ کارروائی کی بھی حامی بھری ہے۔

ساتھ ہی طالبان نے پاکستان سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے ساتھ انسانی اور اسلامی اصولوں کے مطابق تعاون جاری رکھے۔ چمن اور تورخم پر تجارت کے لیے علیحدہ امن کاریڈور (Peace Corridor) قائم کیا جائے گا تاکہ عوامی آمد و رفت اور تجارتی سرگرمیاں محفوظ رہ سکیں۔ پاکستان عام شہریوں، تاجروں اور مریضوں کے لیے خصوصی پاس نظام متعارف کروائے گا جس پر پاکستان نے رضامندی ظاہر کی ہے۔

معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے سرکاری ترجمان اور میڈیا ادارے ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں گے اور اسلامی اخوت و باہمی احترام پر مبنی بیانات کو ترجیح دیں گے۔ اس معاہدے کی میزبانی اور نگرانی ریاستِ قطر کرے گی جبکہ چین اور ایران بطور ضامن ممالک اس کی حمایت کریں گے۔ ہر تین ماہ بعد ایک جائزہ اجلاس (Review Meeting) دوحہ میں منعقد ہوگا تاکہ معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ معاہدہ دستخط کے دن سے نافذ العمل ہوگا اور ابتدائی طور پر دو سال کے لیے قابلِ عمل رہے گا۔

یہ وہی مقصد ہے جس کے لیے پاکستان نے چار برس تک مسلسل کوششیں کیں کہ امن، استحکام اور سفارت کاری کے ذریعے تنازع حل ہو جائے۔ لیکن بالخصوص قندھاری گروپ کی ضد، دوغلی پالیسی اور ٹی ٹی پی کو کھلی چھوٹ نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی دفاعی حکمتِ عملی میں سختی لائے اور "خارجی جہاں سے آئیں گے وہیں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا" کی پالیسی اپنائے۔

اس معاہدے کے حوالے سے اب یہ اہم سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا طالبان حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد کرے گی یا ماضی کی طرح اس بار بھی وعدہ خلافی کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور سازشیں جاری رکھے گی؟۔کہیں طالبان اس معاہدے کے ذریعے انڈین مدد کے ساتھ پاکستانی کے فضائی حملوں کا جواب دینے کی تیاری کیلئے مہلت حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تو نہیں ؟۔ کیا طالبان حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کو دہشت گرد کاروائیوں سے روک سکے گی؟۔کیا طالبان حکومت بھارت کی طرف سے حاصل ہونے والے مفادات کے زیر اثر پاکستان کے خلاف بھارتی پراکسی کے طور پر کام کرنے سے گریز کرے گی؟۔کیا ترکیہ اور قطر ثالث کے طور پر طالبان کو اس معاہدے پر عملدرآمد کرانے کی اخلاقی و سفارتی طاقت رکھتے ہیں؟۔

ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے طالبان کا ماضی کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ لہذا اس حوالے سے مایوس کن تصویر سامنے آتی ہے۔ تاہم اس بار پاکستان کی طرف سے طالبان پر کئے جانے والے براہ راست کاری وار اور برادر اسلامی ممالک کی پاکستان کے موقف کی تائید اور ثالثی کا کردار ایک مثبت پہلو ہے جبکہ طالبان کی بھارت سے قربت اور ٹی ٹی پی کی افغان طالبان کے ساتھ نظریاتی وابستگی اور جہادی تعلق معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک منفی پہلو ہے۔

ان حالات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو ایک طرف تو طالبان پر سخت دفاعی کاروائی اور تجارتی حوالے سے دباؤ برقرار رکھنا ہوگا اور دوسری طرف دوست ممالک اور علاقائی طاقتوں کی مدد سے انتہائی کامیاب سفارت کاری کے ذریعے طالبان کو ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں سے اور بھارت کی پراکسی بننے سے روکنے پر مجبور کرنا ہوگا۔اس سلسلے میں افغانستان کے معاشی ڈونر ہونے کے ناطے قطر اور سعودی عرب موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ طالبان پر اثر رسوخ رکھنے والے پاکستانی علماء کرام اور سیاستدانوں کو بھی طالبان قائدین کو قائل کرنے کیلئے استعمال کرنے کی ایک اور کوشش کی جا سکتی ہے اور طالبان میں پاکستان کے موقف کے حامی طالبان کو بھی اس سلسلے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس لائحہ عمل کے مطابق پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے جواب میں اندرون افغانستان بھرپور طاقت کے استعمال کا خوف تجارتی دباؤ اور کامیاب سفارت کاری کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی جاسکتی ہے۔قطر،سعودی عرب اور امریکہ افغان حکومت کو معاشی طور سہارا دینے والے اہم ممالک ہیں، لہذا پاکستان کو ضرورت پڑنے پر بھرپور طریقے سے اس ہتھیار کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے یہ پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بلخصوص خیبرپختونخوا حکومت اور اس معاملے پر ان کے موقف سے اختلاف رکھنے والے تمام دیگرطبقات کو قائل کرکے آن بورڈ لینا ہوگا تاکہ اندرونی اور بیرونی طور پر مثبت پیغام جائے۔اور دہشت گردی کے خلاف وفاقی اور صوبائی اشتراک سے مشترکہ مؤثر کاروائی ممکن ہو۔

یہ معاہدہ یقیناً طالبان سرکار کے لیے بھی ایک امتحان ہے۔ اگر انہوں نے اس بار بھی وعدہ خلافی کی تو اسلامی برادر ممالک اور خاص طور پر ثالث ممالک قطر اور ترکیہ سے اس کے تعلقات میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف اسے پاکستان کی طرف سے تباہ کن جواب کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان واضح پیغام دے چکا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور اس کے سہولت کاروں کے ٹھکانوں پر ہر جگہ حملے کر کے جواب دے گا۔ لیکن اس تنازع کا اس حد تک جانا یقیناً علاقائی امن اور دونوں ممالک کیلئے بھی مثبت نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔ اس لئے افغانستان اور پاکستانی قیادت کو اپنی پرانی غلطیوں سے سیکھ کر دوسروں کی جنگیں اپنی سرزمین پر لڑنے کے بجائے اپنی عوام اور ملک کے مفاد میں فیصلے کرنے ہوں گے۔پْرامن ہمسائے کے طور پر ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اپنی ملکی ترقی کیلئے راستہ ہموار کرنا ہوگا۔

پاکستان ،ایران ،چین ،روس ،افغانستان ،ازبکستان ملکر اس خطے میں معاشی و سیاسی انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔افغانستان کی 70 فیصد تجارتی اشیاء پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ سے جاتی ہیں اور امریکہ کی طرف سے بھارت سے چاہ بہار کے حوالے سے رعایت واپس لینے کے بعد افغانستان کے لئے وہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے۔اسی لئے افغانستان کی طرف سے چیک پوسٹوں کی واپسی کے بعد دوسرا مطالبہ ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کے دوران افغانستان کو پاکستان کی برآمدات گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 36.

68 فیصد بڑھ کر 77 کروڑ 38 لاکھ تک پہنچ چکی ہیں جو گزشتہ مالی سال کے دوران 55 کروڑ 80 لاکھ تھیں۔

ان حقائق کو ذہن میں رکھ کر افغان قیادت کو ایک ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے اپنی خارجہ و داخلہ پالیسی کو زمینی و علاقائی حقائق و حالات اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور اس تاریخی حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ اپنے ملک میں دہشت پسند گروپوں کو جگہ دینے پروان چڑھانے اور دوسرے ممالک کے خلاف کاروائیوں کی اجازت دینے کی پالیسی جہاں اسے دنیا میں تنہا کر دے گی وہیں یہ گروپ کسی وقت خود ان کی ریاست اور بین القوامی امن کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں افغانستان ایک بار پھر بڑی طاقتوں کا نشانہ بن سکتا ہے اور انہیں یاد رکھنا ہو گا کہ اس بار ماضی کی طرح پاکستان ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔ جس کی مدد سے انہوں نے عالمی طاقتوں کے خلاف جنگوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

طالبان کو اب جنگجو گروہ کے موڈ سے نکل کر یہ سمجھنا ہوگا کہ اب وہ ایک ریاست کے حکمران ہیں لہذا انہیں دنیا کے ساتھ چلنے'اپنا مثبت امیج بنانے' ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے جنگجویانہ طرز عمل کو بدل کر سنجیدہ اور مدبرانہ انداز اپنانا ہوگا۔طرز حکمرآنی میں 'تعمیری و فلاحی اقدامات کرنا ہونگے۔ اندرون ملک اور خطے میں امن کے قیام' بین القوامی سطح پر اپنی حکومت کو تسلیم کرانے اور پسماندگی کا شکار افغان عوام کے معاشی حالات کی بہتری کیلئے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک اور دنیا کے ساتھ پر امن بقائے باہمی پر مبنی تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ افغانستان کو ایک ذمہ دار'خوشحال' تہذیب یافتہ اور مستحکم ریاست بنانے کا یہی ایک راستہ ہے۔   

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان کی سرزمین معاہدے پر عملدرا مد پاکستان کی طرف سے پاکستان کے خلاف ہے کہ افغانستان میں افغانستان طالبان حکومت افغانستان کے دونوں ممالک پی اور دیگر کے حوالے سے ہے کہ افغان کو پاکستان کہ پاکستان نے پاکستان پاکستان کو پاکستان نے ان کے موقف کی پالیسی میں افغان طالبان کو معاہدے کے کرتے ہوئے اس معاہدے کے طور پر سکتے ہیں کے مطابق ممالک کے کے ذریعے انہوں نے ٹی ٹی پی کریں گے جائے گا کرنے کی گا تاکہ کے ساتھ کے جواب کیا جا اور اس کے لیے ہے اور کے بعد گا اور

پڑھیں:

استنبول مذاکرات کا تیسرا دور جاری، افغان طالبان کا تحریری معاہدے سے گریز

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استبول مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے. سفارتی ذرائع کے مطابق افغان طالبان تحریری معاہدہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں، افغان طالبان کی جانب سےلچک نہ دکھانے پر صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔سفارتی ذرائع کے مطابق ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے. آج مذاکرات کے دور میں ثالث ابراہیم قالن بھی موجود ہیں۔ذرائع کے مطابق افغان طالبان تحریری معاہدہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں، افغان طالبان کی جانب سے لچک نہ دکھانے پر صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہفتے کو 9 گھنٹے اور اتوار کو 13 گھنٹے سے زائد دورانیے کے مذاکرات ہوئے تھے. تاہم کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔اتوار کو ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں پاکستانی وفد نے افغان طالبان کے وفد کو حتمی موقف پیش کردیا تھا۔سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے اپنے حتمی موقف میں واضح کر دیا تھا کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستان کے برعکس طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں.صاف دکھائی دے رہا ہے کہ افغان طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے جب کہ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی
  • پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور،پاکستان ڈٹ گیا، طالبان وفد کا تحریری معاہدے سے گریز
  • پاکستان کے افغان طالبان سے مذاکرات کا تیسرا بے ثمر دور
  • استنبول میں پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور؛ طالبان وفد کا تحریری معاہدے سے گریز
  • استنبول مذاکرات کا تیسرا دور جاری، افغان طالبان کا تحریری معاہدے سے گریز
  • افغان طالبان کا پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں عدم تعاون، ٹرمپ کی ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش
  • پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور شروع
  • انڈیا کی افغانستان سے دشمنی
  • افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان سے کس طرح لاتعلقی کر سکتے ہیں؟