افغان طالبان کا پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں عدم تعاون، ٹرمپ کی ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ دونوں ممالک کے وفود اس وقت استنبول میں موجود ہیں، تاہم گزشتہ روز مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔
افغانستان اور پاکستان کے حکام کے درمیان استنبول میں پیر کے روز مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہوا، تاہم ذرائع کے مطابق دونوں ممالک تاحال پائیدار امن معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
رائٹرز کے مطابق جنوبی ایشیا کے ان دونوں ہمسایہ ممالک نے 19 اکتوبر کو دوحا میں سرحدی جھڑپوں کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔ ان جھڑپوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے، جو 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک کی سب سے شدید جھڑپیں تھیں۔
ترکی کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد ایک طویل المدتی جنگ بندی کا معاہدہ طے کرنا ہے، مگر فریقین کے مؤقف میں نمایاں فرق برقرار ہے۔
رائٹرز کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ افغان طالبان مذاکراتی عمل میں تعاون نہیں کر رہے۔ ایک پاکستانی ذریعے کے مطابق، ”پاکستانی وفد نے واضح کر دیا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔“
دوسری جانب طالبان وفد کے ایک رکن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ کہنا غلط ہے کہ طالبان مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور متعدد امور پر بات چیت جاری ہے۔“
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی اے سے گفتگو میں کہاکہ ”اسلامی امارت مذاکرات کی حامی ہے اور سمجھتی ہے کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔“
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے موجودہ مذاکراتی صورتحال پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم ہفتے کے روز پاکستان کے وزیرِ دفاع نے خبردار کیا تھا کہ، ”اگر استنبول مذاکرات میں معاہدہ نہ ہوا تو اس کا مطلب کھلی جنگ ہوگا۔“
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کی رات کو ایک بار پھر پیشکش کی کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تنازع ختم کرنے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
انہوں نے ملیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا، “میں اس مسئلے کو بہت جلد حل کر دوں گا، میں دونوں ممالک کو اچھی طرح جانتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ ہم یہ معاملہ جلد نمٹا لیں گے۔”
ذرائع کے مطابق، مذاکرات کا اگلا سیشن استنبول میں ہی جاری رہے گا، اور اگر کوئی حتمی معاہدہ طے نہ پایا تو ممکن ہے کہ ترکی یا قطر میں مزید مذاکراتی دور بلایا جائے۔
طالبان کے مسودے میں شامل دو بنیادی مطالبات کیا ہیں؟
ترکیہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری مذاکرات دوسرے روز کوئی فیصلہ کن پیشرفت نہ ہوسکی۔ تاہم، دونوں ممالک کے وفود نے پندرہ گھنٹے طویل بات چیت کے بعد ممکنہ معاہدے کا مسودہ تیار کیا۔ اس دوران ثالثوں کی موجودگی میں دونوں جانب سے تجاویز کا تبادلہ بھی ہوا۔
افغان خبر رساں ادارے “طلوع نیوز“ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے وفد نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سامنے ایک مسودہ پیش کیا جس میں دو بنیادی مطالبات شامل تھے۔
اول یہ کہ پاکستان افغانستان کی فضائی حدود اور زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اور دوم، پاکستان اپنی سرزمین کسی ایسی تنظیم یا گروہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دے جو افغانستان کے خلاف کارروائی کرے۔
رپورٹ کے مطابق یہ مسودہ ثالثوں کے ذریعے پاکستانی وفد کو پہنچایا گیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنا نیا مسودہ افغان حکام کے حوالے کیا ہے۔
پاکستان نے اپنے مؤقف میں اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی اور منصوبہ بند حملوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
بین الاقوامی امور کے افغان ماہر واحد فقیری نے طلوع نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ”اگر ترکی میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں دونوں ممالک سرحدی کشیدگی کم کرنے اور باہمی تعاون پر متفق ہو گئے تو ایسا معاہدہ چند ماہ تک مؤثر رہ سکتا ہے۔“
رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک نے جنگ بندی کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک چار فریقی مانیٹرنگ چینل قائم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ چینل ممکنہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گا اور معلومات کے تبادلے کا پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر محمد بلال عمر نے بتایا کہ ”دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو فریقین کے اقدامات کی نگرانی کریں گی۔“
سہولت کاروں کے کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے، پاکستان
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال دہشت گردی کے لیے نہیں ہونا چاہیے، جبکہ افغان طالبان نے دیگر ممالک کو مانیٹرنگ میکانزم میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کیا ہے کہ قطر کی طرح ترکیہ بھی مذاکرات میں ایک غیر جانبدار بروکر کے طور پر سہولت کاری کر رہا ہے اور سہولت کاروں کے کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرناک واقعے یا مِس ایڈونچر کا مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قومی مفادات کا ہر حال میں دفاع کرے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے افغان طالبان مذاکرات میں استنبول میں ان مذاکرات پاکستان نے کے درمیان کے مطابق کہ افغان ذرائع کے کے لیے
پڑھیں:
افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار
کابل:افغانستان کی کابل یونیورسٹی میں علما، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں ایک ہزار سے زائد علما نے شرکت کی۔
اس اجلاس کے دوران ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بیرون ملک جا کر عسکری سرگرمیوں کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا۔
علماء نے کہا کہ کسی بھی شخص کو افغانستان سے باہر عسکری کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو بھی ایسا کرے گا، وہ باغی تصور ہوگا۔
اعلامیہ میں افغان حکومت کو واضح پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
افغان علما نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے اور کسی بھی بیرونی عسکری سرگرمی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔
افغان علماء اور عمائدین کا یہ اعلامیہ پاکستان کے دیرینہ مطالبے کی توثیق سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی بار افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس مطالبے پر کوئی واضح اقدام نہیں اٹھایا گیا، اور وہ سرحد پار سے پاکستان میں دراندازی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کے تین ادوار ہوئے تھے، لیکن افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی کی وجہ سے یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔
ان مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی تحریری ضمانت مانگی تھی، جو افغان طالبان دینے میں ناکام رہے۔
افغان علماء کا یہ اعلامیہ پاکستان کی تشویش کو مزید تقویت دیتا ہے، کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان سے اپنی سرزمین کو دہشت گردی اور عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کی درخواست کی ہے۔
اس اعلامیے کے ذریعے افغان علماء نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان کا امن اور خودمختاری غیر متنازعہ ہے، اور اسے کسی بیرونی مداخلت سے بچانے کے لیے افغان حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
افغان علماء کا مشترکہ اعلامیہ نہ صرف افغانستان کے داخلی حالات بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک اہم پیشرفت ہے۔
یہ اقدام افغان طالبان کے رویے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود سکیورٹی اور سیاسی تناؤ کی شدت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
افغان میڈیا نے اس اجلاس اور اعلامیے کو اہمیت دیتے ہوئے اس کا بھرپور احاطہ کیا ہے اور اسے افغانستان کی سیاسی و سکیورٹی حکمت عملی میں ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔