استنبول میں ہونے والے اپک افغان مذاکرات کی ناکامی کا تعلق پاکستان کی سفارت کاری سے نہیں بلکہ افغان حکومت کے اندرونی اختلافات اور طاقت کی جنگ سے تھا۔

ذرائع کے مطابق آغاز ہی سے افغان وفد 3 مختلف دھڑوں قندھار، کابل اور خوست میں تقسیم نظر آیا، اور ہر دھڑا اپنے الگ رہنماؤں سے ہدایات لے رہا تھا۔ جب بات ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے اور تحریری ضمانتوں پر پہنچی تو قندھار گروپ نے خاموش رضامندی ظاہر کی، مگر کابل گروپ نے اچانک مطالبہ کیا کہ جب تک امریکا بطور ضامن شامل نہیں ہوتا، کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات، میری خوش فہمی نہ ہو لیکن مجھےان میں امن نظر آیا تھا، خواجہ آصف

یہ شرط پہلے کبھی زیر غور نہیں آئی تھی۔ اس کا مقصد سیکیورٹی نہیں بلکہ واشنگٹن کے ذریعے مالی معاونت کی راہ کھولنا تھا۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان وفد میں بد نظمی واضح تھی۔ ایک رکن باہر بیٹھے ہینڈلر سے پرچیاں لے رہا تھا، دوسرا بار بار فون پر کابل سے ہدایات لے رہا تھا۔ ہر کال کے بعد طے شدہ نکات دوبارہ کھولے گئے اور مذاکرات میں تاخیر کی گئی تاکہ بھارت سمیت دیگر بیرونی قوتوں کو شامل کیا جا سکے۔

امریکی ضامن کی شرط دراصل مالی بحالی کا حربہ تھی، تاکہ اگر امریکا شامل ہو تو طالبان ‘تعاون’ کا تاثر دے سکیں، امداد کے دروازے دوبارہ کھلیں اور ڈالر کی آمد سے داخلی دباؤ کم ہو۔ اس طرح طالبان نے ٹی ٹی پی کے معاملے کو ایک سیاسی و مالی ہتھیار بنا لیا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں جاری، بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی، خواجہ آصف

ذرائع کے مطابق ترک اور قطری ثالثوں نے نجی طور پر اعتراف کیا کہ پاکستان کے مطالبات جائز ہیں، مسئلہ افغان فریق کے اندرونی عدم استحکام کا ہے، اور کابل دھڑا اس فائل کو واشنگٹن کی جانب گھسیٹ کر مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اس طرح استنبول مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ افغان حکومت اندرونی طور پر منقسم ہے، کابل دھڑا ڈالر کے بہاؤ کی بحالی چاہتا ہے، اور طالبان ٹی ٹی پی کو سودے بازی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک کابل اپنی داخلی کشمکش ختم نہیں کرتا اور دہشت گردی کو سیاسی کرنسی کے طور پر استعمال کرنا نہیں چھوڑتا، امن ممکن نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان مذاکرات

پڑھیں:

کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی، پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ

  ویب ڈیسک  :پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تین روز جاری رہنے والے مذاکرات کا کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا، طالبان وفد کے کابل انتظامیہ سے بار بار رابطے ، ہر بار رابطے پر مؤقف بدل جاتا ہے۔

 سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تین روز سے مذاکرات جاری تھے، اب بے نتیجہ ختم ہو گئے ہیں، ثالث ممالک کی جانب سے فریقین کو دوبارہ مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

شہبازشریف اور سعودی ولی عہد کی ملاقات، توانائی، تجارت اور نئے منصوبوں پر گفتگو

 ذرائع نے بتایا کہ تیسرے دن مذاکرات 18 گھنٹے تک جاری رہے، 18 گھنٹوں کے دوران افغان طالبان کے وفد نے متعدد بار پاکستان کے خوارج ٹی ٹی پی اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ اور یقینی کارروائی کے منطقی اور جائز مطالبے سے اتفاق کیا۔

ذرائع کے مطابق میزبانوں کی موجودگی میں بھی افغان وفد نے اس مرکزی مسئلہ کو تسلیم کیا، تاہم ہر مرتبہ کابل سے ملنے والی ہدایات کے باعث افغان طالبان کے وفد کا مؤقف بدل جاتا، مذاکرات کے دوران کابل سے ملنے والے غیر منطقی اور نا جائز مشورے ہی بات چیت کے بے نتیجہ رہنے کے ذمہ دار ہیں۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ پہلے ٹی ٹونٹی میں آج مدمقابل

 ذرائع نے زور دیا کہ پاکستان اور میزبان انتہائی مدبرانہ اور سنجیدہ طریقے سے اب بھی ان پیچیدہ معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں، اب بھی ایک آخری کوشش جاری ہے کہ باوجود طالبان کی ہٹ دھرمی کسی طرح اس معاملے کو منطق اور بات چیت سے حل کر لیا جائے اور مذاکرات ایک آخری دور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

 قبل ازیں ذرائع نے بتایا تھا کہ مذاکرات میں پاکستان اپنے پیش کردہ منطقی مطالبات پر قائم ہے تاہم افغان طالبان کا وفد پاکستانی مطالبات کو پوری طرح تسلیم کرنےکو تیار نہیں، پاکستانی وفد کا مؤقف بدستور منطقی، مضبوط اور امن کے لیے ناگزیر ہے، میزبان ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے یہ مطالبات معقول اور جائز ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان طالبان کا وفد خود بھی سمجھتا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا درست ہے۔

ریلوے ہیڈکوارٹر: افسران کے تقرر و تبادلے

ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان کے وفد کو کابل سے کنٹرول کیا جا رہا ہے، افغان طالبان کا وفد بار بار کابل انتظامیہ سے رابطہ کر کے انہی کے احکامات کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے تاہم کابل انتظامیہ سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آ رہا جس سے تعطل پیدا ہو رہا ہے۔

 ذرائع کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ کابل میں کچھ عناصر کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

 ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد نے بارہا یہ نکتہ واضح کیا ہےکہ ان مطالبات کو تسلیم کرنا سب کے مفاد میں ہے جبکہ میزبان ممالک نے بھی افغان وفد کو یہ بات سمجھائی ہے۔

بہاولنگر کے شہریوں پر نیا بوجھ، صفائی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ

 پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر پر اتفاق کیا گیا تھا، مذاکرات کا دوسرا دور چند روزقبل استنبول میں ہوا تھا جس میں پہلے دور میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔

 سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغان حکام کو دہشت گردی کی روک تھام کا جامع پلان دیا تھا جبکہ اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ نے کہا تھا کہ افغان طالبان کے پاس دو ہی آپشن ہیں یا تو امن کے ساتھ رہیں یا پھر ہماری ان کے ساتھ کھلی جنگ ہے۔
 
 

متعلقہ مضامین

  • استنبول مذاکرات کا چوتھا دور جاری، افغان وفد فیصلہ کرنے میں گومگو کی کیفیت کا شکار
  • کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی، پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ
  • استنبول مذاکرات کا تیسرا دور 18 گھنٹے جاری رہا، افغان وفد کا مؤقف کابل کے احکامات پر بار بار تبدیل
  • استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا تیسرا مرحلہ 18 گھنٹے جاری، کابل کی ہدایات نے پیش رفت روک دی
  • افغان طالبان سے حوصلہ افزا جواب نہ مل سکا، استنبول مذاکرات تعطل کا شکار
  • استنبول میں پاک افغان مذاکرات تعطل کا شکار، کابل انتظامیہ کی ہدایات رکاوٹ بن گئیں
  • استنبول مذاکرات میں تعطل، پاکستان کے منطقی مؤقف کو عالمی سطح پر پذیرائی
  • استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد نے افغان طالبان کے وفد کو حتمی موقف پیش کر دیا
  • دہشتگردوں کی سرپرستی منظور نہیں، پاکستان نے استنبول مذاکرات میں افغان طالبان پر واضح کردیا