WE News:
2025-10-28@06:33:01 GMT

چھوٹا پیک، بڑا پیک اور سی پیک

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

جنرل ضیاء الحق کے دور میں اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے کام ہوئے۔ ان کے اچھے کاموں میں سب سے بڑا ایٹمی پروگرام کی تکمیل رہا۔ جبکہ برے کاموں میں سے سب سے برا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تھی۔ لیکن ان کے دور میں ایک سیاسی گناہ کبیرہ کی بھی بنیاد پڑی۔ وہ گناہ کبیرہ جس کے تسلسل نے اگلے 35 سالوں میں انتہا پسند و شدت پسند دونوں ہی طرح کی تنظیمیں پیدا کیں۔

بظاہر ایم کیو ایم اس معصوم سی خواہش کی تکمیل کے لیے بنی تھی کہ شہری سندھ سے پیپلزپارٹی کو آؤٹ کرنا ہے۔ مگر اس نے ملک کے صنعتی دارالحکومت کا کیا حشر کیا، وہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک بات ایسی ہے جو بتانی ضروری ہے۔ مہاجروں کو حقوق کی بات کرنے والی اس جماعت نے جس دور میں کام کا آغاز کیا، وہ ایسا وقت تھا جب اردو اسپیکنگ برادری ملک کی سب سے تعلیم یافتہ اکائی مانی جاتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: خالصتان تحریک اور مودی کا خوف

اس زمانے میں یہ برادری کاٹیج انڈسٹری جیسی چھوٹی صنعتوں سے لے کر ہیوی انڈسٹریز کے قیام  تک صنعتی شعبے پر چھائی ہوئی تھی۔ ان کی مڈل کلاس بھی ملک کی سب سے خوشحال مڈل کلاس تھی۔ بہترین تعلیم انہیں بہترین ملازمتوں سے نواز چکی تھی۔ یہ صرف کماتے نہیں تھے بلکہ خیراتی کاموں پر خرج بھی اتنے بڑے پیمانے پر کرتے تھے کہ کراچی سے باہر کا ہر مدرسہ اور ویلفیئر ٹرسٹ رمضان میں چندے کے لیے کراچی کا رخ کرتا۔ اس ملک کا ہر خیراتی ادارہ انہی کی چیرٹی سے چل رہا تھا۔

کراچی کی دوسری بڑی لسانی اکائی پختون چلے آرہے ہیں۔ 80 اور 90 کی دہائیوں میں پختونوں کے پیشے یہ رہے کہ گوداموں میں وزن ڈھوتے، رکشہ ٹیکسی چلاتے، سیٹھوں کے ڈرائیور اور چوکیدار ہوتے۔ اور جب ان میں سے کوئی ضعف یا بیماری سے دوچار ہوجاتا تو اپنی جگہ جواں سال بیٹا سیٹھ کے سپرد کرکے خود ریٹائرمنٹ لے کر گاؤں چلا جاتا۔

الطاف حسین کی جدوجہد میں اردو اسپیکنگ نوجوانوں نے ہی سب سے زیادہ حصہ لیا۔ اور اس حد تک لیا کہ کراچی کے تعلیمی ادارے ہی خالی ہوگئے۔ جانتے ہیں اس خلاء کو کس نے پر کیا ؟ کراچی کے پختون مزدوروں نے اپنی اولاد سے پر کیا۔ اب پختون بچے پڑھ رہے تھے اور مہاجر بچے ’جدوجہد‘ کر رہے تھے۔ جلد ہی وہ دن آیا جب الطاف حسین کا کھیل ختم ہوگیا۔ یہ جمع تفریق کا لمحہ تھا  اور ہر جمع تفریق کا حاصل یہ ہے کہ آج کراچی کے تجارت ہی نہیں ٹھنڈے ٹھار دفاتر کی پڑھی لکھی ملازمتوں پر بھی پختون جلوہ افروز ہیں۔ اور مہاجر نوجوان چنگچی ہوبر چلا رہے ہیں۔ الطاف حسین کی جدوجہد کے نتیجے میں اب ملک کی سب سے پڑھی لکھی اکائی بھی مہاجر نہیں رہے۔

 یہ اس قوم کے لیے اتنا بڑا المیہ ہے کہ المیہ لفظ بھی اس کی سنگینی واضح کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ایک پوری لسانی اکائی کی یہ بربادی صرف اس اکائی نہیں بلکہ ملک کا بھی غیر معمولی نقصان ہے۔ قومیں اچھے مستقبل کے لیے ہی تعلیم کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ لیکن اس ملک کی سب سے پڑھی لکھی اکائی نے اپنی ایک پوری نسل کو ہی تعلیم سے محروم کردیا۔ حقوق کتنے حاصل ہوئے؟ یہ سوال تو پوچھیے بھی مت۔

مزید پڑھیے: شرم الشیخ معاہدہ: وجوہات اور امکانات

ہم نے ’ضیاء پولیٹکل لیبارٹریز‘ کی مچائی سنگینی واضح کرنے کے لیے اس لیبارٹری کی اولین پیداوار کا حال قدرے تفصیل سے اس لیے واضح کیا کہ بات سمجھنے میں سہولت ہوجائے۔ سو ہم دیگر تنظیموں کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ بس اتنا ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ پچھلے 35 برسوں میں 3 طرح کے تنظیمیں تخلیق کی گئیں۔ لسانی، مسلکی اور عسکری۔ خدا کی شان کہ یہ سارے تجربات اس بری طرح فیل ہوئے کہ ہر روبوٹ نے پلٹ کر ان سائنسدانوں پر ہی حملہ کردیا جو ان کے موجد و خالق تھے۔ ان روبوٹس میں سے جو سب سے بڑا تھا اس کا تعارف ’9 مئی‘ ہے سو اندازہ لگا لیجیے کہ یہ تجربات کس بری طرح فیل ہوئے۔

اگر ان روبوٹس نے صرف اپنے خالقوں کو نقصان پہنچایا ہوتا تو ہم تالی پیٹنے والوں میں سے ہوتے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ انہوں نے ملک کا بھی بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ یاد کیجیے وہ اسلام آباد والے تین دھرنے۔ عمران خان، طاہر القادری اور خادم حسین کے دھرنے۔ جو ہوئے بھی ایسے وقت جب اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اکنامک پروجیکٹ سی پیک شروع تھا۔ مگر مشہور سائنسدان جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور جنرل آصف غفور کو سی پیک کی بجائے اپنے ’بڑا پیک، چھوٹا پیک‘ کی پڑی تھی۔

ایک بڑ عذاب یہ ہے کہ ان تنظیموں کی لیڈر شپ کا کوئی ورلڈ ویو چھوڑیے، سرے سے سیاسی شعور ہی نہیں ہوتا۔ چن چن کر ایسے نالائق ترین لوگ سلیکٹ کیے جاتے جو جذباتیت تو رکھتے ہوں مگر عقل نہیں۔ سو انہیں اتنی سی بات بھی نہیں معلوم کہ ممالک کی داخلی سیاست عالمی سیاست کے زیر اثر چلتی ہے۔ اور اس اثر سے نکلنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔ یہ امریکی ڈامننس کا ہی تو اثر تھا کہ چونکہ اسے جنگ سب سے عزیز تھی سو اس کے دور عروج میں اس کے پورے دائرہ اثر میں عسکری تنظیموں کا کلچر عام ہوگیا۔  اور یہ کلچر ایسی منافقت پر استوار رہا کہ القاعدہ سوویت یونین کے خلاف عزیز تھی۔ سوویت انخلاء کے بعد دہشت گرد قرار پائی، آج پھر سے شام اور افریقہ میں عزیز ہوگئی ہے۔ ابھی پچھلے ماہ ہی خود امریکی شہری مبہوت ہوکر الجولانی کو اسی نیویارک میں چہل قدمی کرتا دیکھ رہے تھے جس کی تنظیم کو نائن الیون کا ذمہ دار بتایا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: افغانوں کی عسکری حقیقت

یہ سیاسی شعور نہ ہونے کا ہی نتیجہ تھا کالعدم تحریک لبیک پاکستان کو اچانک فلسطین یاد آگیا۔ اس کے بچونگڑے ٹائپ نام نہاد قائدین کو شعور ہی نہ تھا کہ دنیا بدل چکی۔ اب راج اس چین کا قائم ہو رہا ہے جس کے ورلڈویو میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب جو پھنے خاں بننے کی کوشش کرے گا اسے پہلی ہی فرصت میں کچل دیا جائے گا۔ چین کبھی بھی کسی ملک کے داخلی امور میں دخل نہیں دیتا۔ فلاں تنظیم کو کچل دو، فلاں کو مٹا دو، یہ امریکی نظام میں چلتا تھا۔ چائنیز تو متعلقہ ملک سے بس اتنا کہتے ہیں کہ بھئی ہماری کشتی میں سوار ہونا ہے تو سامان میں آتش گیر مادے نہیں ہونے چائیں۔ آپ کو آتش گیری کا بہت ہی شوق ہے تو ہم آپ کو اس شوق سے نہیں روکتے۔ کیجیے اپنے ملک میں یہ شوق پورے مگر ہماری کشتی سے دور رہیے۔ اگلے سمجھدار ہوں تو پیغام سمجھ لیتے ہیں۔

 3 روز قبل کی میڈیا رپورٹس دیکھ لیجئے۔ جرمنی یورپ میں چین کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر  ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جرمن وزارت خارجہ نے چائنیز دفتر خارجہ کو آگاہ کیا کہ ہمارے وزیر خارجہ چین کے دورے پر آنا چاہتے ہیں۔ آگے سے جواب ملا

’ہمارے وزیر خارجہ یا سینئر حکام آپ سے ملنے میں دلچسپی نہیں رکھتے‘

 اور دورہ کھڑے کھلوتے منسوخ ہوگیا۔ یہ ہیں چائنیز تیور، جو یورپ کے سب سے تگڑے ملک کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے۔ اور اس لیے نہیں لا رہے کہ ایک طرف یورپین یونین چین کے خلاف تجارتی جنگ میں امریکا کا ٹول بننے پر تلی ہوئی ہے اور دوسری جانب جرمن چانسلر کو ہٹلر بننے کا بھی شوق چڑھ گیا ہے۔

ہمارے ادارے کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ ہم تو بس واقعات اور ان کی ترکیب پر نظر رکھتے ہیں۔ ہمیں بس اتنا ہی دیکھنا ہوتا ہے کہ ہماری حکومت اور اداروں کا چال چلن چائنیز ورلڈ ویو سے ہم آہنگ ہے یا متصادم؟ سو ہمارا مشاہدہ یہ بتا رہا ہے کہ انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کا دور تمام ہوا۔ ان میں سے جو موجود ہیں، انہوں نے بھی اپنا چلن نہ بدلا تو کچل دیے جائیں گے اور جب ایسا ہوگا تو کم از کم ہم ان میں سے نہیں ہوں گے جو کہیں گے۔

’اناللہ و انا الیہ راجعون۔ بہت ظلم ہوا بھئی، سارے ہی انسانی حقوق پائمال کردیے گئے۔ ہم احتجاج کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: پاک سعودی عرب معاہدہ: طاقت کے توازن کی نئی تعبیر

درندوں کے کونسے انسانی حقوق؟۔ انسانی حقوق پر امن لوگوں کے ہوتے ہیں۔ ان جماعتوں کے ہوتے ہیں جو سرکار سے جلسے، مارچ اور ریلی کی اجازت لیتی ہیں۔ مقررہ تاریخ، مقررہ وقت اور مقررہ مقام پر اپنی سیاسی سرگرمی کرکے گھر چلے جاتے ہیں۔ آتے ہوئے گملہ توڑتے ہیں اور نہ جاتے ہوئے پھول۔  ایسوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تو ہم بھی ان کے حق میں اپنی ناتواں سی آواز اٹھائیں گے۔ لیکن انتہا پسند و شدت پسند؟ ان کا صفایا قومی مشن سمجھ کر کرنا چاہیے۔  اب مذاکرات، معاہدات اور ہزار ہزار روپے فی کارکن والے تماشے بند ہونے چاہییں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

ایم کیو ایم پارٹیوں کے سائنسدان پارٹیوں کے موجد پی ٹی آئی جنرل ضیاء الحق جنرل فیض حمید ذوالفقار علی بھٹو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایم کیو ایم پارٹیوں کے سائنسدان پارٹیوں کے موجد پی ٹی ا ئی جنرل ضیاء الحق جنرل فیض حمید ذوالفقار علی بھٹو ملک کی سب سے انتہا پسند سب سے بڑا یہ ہے کہ کے دور کے لیے

پڑھیں:

ہم انسان نہیں ہندسے ہیں

عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس گیبریسس نے وارننگ دی ہے کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ کی آبادی کی جسمانی و ذہنی صحت کا مسئلہ نسل در نسل چل سکتا ہے۔

وہاں صحت کے ڈھانچے کے نام پر کچھ نہیں بچا۔پوری آبادی ذہنی ٹراما میں مبتلا ہے اور یہ حالات محض دوا دارو اور ظاہری علاج سے آگے کا مرحلہ ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے جنگ بندی کے بعد کچھ میڈیکل سپلائز کو اندر پہنچانے کی اجازت دی ہے۔مگر یہ اس قدر ناکافی ہیں کہ اس سے مجموعی مسئلے کی سنگینی کم نہیں ہو سکتی۔

غزہ کو اس وقت ایک بڑے غذائی اور طبی انجکشن کی ضرورت ہے۔ جتنی امداد پہنچانے کی اب تک اجازت دی گئی ہے وہ مجموعی ضرورت کا محض دس فیصد ہے۔

حالانکہ امریکا نے جو بیس نکاتی سمجھوتہ کروایا ہے اس میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی بلا روک ٹوک جاری رہے گی اور اس عمل پر فریقین کے باہمی اختلافات اثرانداز نہیں ہوں گے۔

ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ بھلا کون سا ایسا انسانی مسئلہ ہے جو اس وقت غزہ کو درپیش نہیں۔ بھک مری ، طبی امداد اور انخلا کے منتظر ہزاروں زخمی، صاف پانی اور صفائی اور اسپتالوں کا تہہ و بالا نظام،پوری آبادی ہر طرح کی بیماریوں بالخصوص جلدی امراض کی زد میں ہے ۔

اس پر طرہ یہ کہ امدادی رسد بار بار کسی نہ کسی جواز کے تحت معطل ہو رہی ہے اور جو مدد متاثرین تک پہنچ بھی رہی ہے وہ ضرورت کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔

ڈاکٹر تیدروس کے بقول اگر آپ قحط سالی اور ذہنی صحت کے مسائل یکجا کر کے دیکھیں تو اس کے مجموعی اثرات جانے کتنی نسلوں تک محسوس ہوتے رہیں گے۔

لہٰذا انسانی امداد کی ترسیل کے معاملے کو کبھی ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔ امریکا جنگ بندی سمجھوتے کا بنیادی ضمانتی ہے۔ یہ اس کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام فریقوں کو اس سمجھوتے کے تحت عائد ذمے داریوں کا پابند رکھے۔

اس دوران عالمی ادارہِ خوراک کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت روزانہ دو ہزار ٹن غذائی اور دیگر امدادی سامان سے بھرے چھ سو ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ عملاً دو سو سے تین سو ٹرک ہی داخل ہو پا رہے ہیں۔

چار سرحدی گذرگاہوں میں سے دو ( کارم شلوم اور کسوفم ) کھلی ہوئی ہیں اور ان پر بھی تفصیلی چھان پھٹک کو جواز بنا کے مزید تاخیر پیدا کی جا رہی ہے۔جب کہ سب سے بڑی رفاہ کراسنگ مسلسل بند ہے۔

حالانکہ تمام سرکردہ عالمی امدادی تنظیمیں جنگ بندی کے ذمے دار ثالثوں سے لگاتار اپیل کر رہی ہیں کہ تمام گذرگاہیں بلا روک ٹوک کھولی جائیں۔یہ سب راستے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔

ڈاکٹر تیدروس نے اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی برائے فلسطین انرا کا نام لیے بغیر کہا کہ ہر امدادی ادارے کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔کیونکہ ان میں سے بعض اداروں ( انرا ) کا جتنا زمینی تجربہ ہے کسی اور کا نہیں۔

واضح رہے کہ اٹھہتر برس سے فلسطینیوں کی ہر طرح کی مدد کرنے والے ادارے انرا کو اسرائیل نے ’’ دھشت گرد تنظیم ‘‘ قرار دے رکھا ہے اور امریکا بھی اس معاملے میں اسرائیل کا حامی ہے۔

انرا ذرایع کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کی جمع کردہ امداد رفاہ کراسنگ کے اس پار مصری علاقے میں پڑی پڑی خراب ہو رہی ہے۔یہ امداد غزہ کی آبادی کی کم ازکم دو ماہ کی ضروریات پورا کر سکتی ہے۔اور اس کی مقدار چھ ہزار ٹرکوں کے برابر ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس نے بی بی سی ریڈیو فور کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل نے ہماری بہت سی طبی رسد غزہ میں پہنچنے سے اس جواز کے تحت روک رکھی ہے کہ کچھ اشیا کا دوہرا استعمال ( فوجی و سویلین ) ہو سکتا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں کہ کوئی بھی عارضی فیلڈ اسپتال بنانے کے لیے ترپالیں اور بانس درکار ہیں۔اگر بانس یہ کہہ کر روک لیا جائے کہ اس کا دوہرا استعمال ہو سکتا ہے تو ہم فیلڈ اسپتال کا خیمہ کیسے تانیں گے ؟

ڈاکٹر تیدروس نے بتایا کہ اب تک لگ بھگ سات سو زخمی بیرونِ ملک منتقل نہ کیے جانے کے سبب مر چکے ہیں۔ہزاروں دیگر منتقلی کے منتظر ہیں۔مگر گزشتہ دو ہفتے سے یہ کام اس لیے ٹھپ ہے کیونکہ اسرائیل میں دو ہفتے کی مذہبی چھٹی کے سبب متعلقہ ادارے بند رہے ہیں اور ان کے کسی متبادل کا بھی انتظام نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ بہت سے شدید زخمی زمینی راستے سے منتقل نہیں کیے جا سکتے مگر ان کے لیے مطلوبہ تعداد میں پروازیں میسر نہیں۔

اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے کم ازکم ستر ارب ڈالر درکار ہیں۔ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ غزہ کے طبی ڈھانچے کی بحالی کے لیے کم از کم سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

دس اکتوبر سے ہونے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملوں میں اب تک سو سے زائد مزید فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر تیدروس نے غزہ میں جنگ بندی کے باوجود شہریوں کی ہلاکت پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ امن کا اعلان سن کر خوشی سے اچھل رہے تھے ان میں سے کئی یہ سننے کے بعد قتل ہو گئے کہ اب امن قائم ہو گیا ہے۔

غزہ میں مقیم ایک رائٹر سارہ عواد لکھتی ہیں کہ ’’ اسرائیل موجودہ جنگ بندی کو سوئچ آن اور آف کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ایک دن کسی بات کو بہانہ بنا کر بمباری کر دو اور گزشتہ روز نہ کرو۔

لوگ پھر امن کے دھوکے میں آ کر باہر نکلنا شروع کریں تو پھر اچانک بمباری کر دو۔یعنی فلسطینی بھی چن چن کے مارے جاتے رہیں اور دنیا بھی اس وہم میں مبتلا رہے کہ جنگ بندی قائم ہے۔

سارہ کے بقول کسی بھی فلسطینی کو یقین نہیں کہ جنگ بندی کا دھوکا کب تک چلے گا اور کب بموں کی برسات ہونے لگے گی۔یہ جنگ بندی نہیں مسلسل قتلِ عام میں محض عارضی وقفہ ہے۔

ہم اس وقت تک قاتل کے رحم و کرم پر ہیں جب تک دنیا باعزت زندگی گذارنے کا ہمارا بنیادی حق تسلیم نہیں کر لیتی اور اس حق کو قاتل سے منوا نہیں لیتی۔تب تک ہم انسان نہیں میڈیا کے لیے محض چند سو ، ہزار ، لاکھ کے ہندسے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • بھکاریوں سے جان چھڑائیں
  • ہم انسان نہیں ہندسے ہیں
  • کیا ہم ایک بے بس، لاچار قوم ہیں؟
  • محنت اور صرف محنت!
  • توبہ، توبہ، توبہ!!
  • دل کا چور
  • خدائوں کی موت
  • کیا کچھ ہوسکتا ہے؟
  • غزہ جنگ بندی کے بعد(1)