این سی سی آئی اے کے لاپتہ عہدیدار محمد عثمان ایف آئی اے کی تحویل میں
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کی ایف آئی اے کی تحویل میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت خوری کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، محمد عثمان کو رواں ماہ کے آغاز میں اسلام آباد سے اغوا کیا گیا تھا، جس کے بعد ان کی بازیابی کے لیے ان کی اہلیہ روزینہ عثمان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے پولیس کو انہیں تلاش کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مزید مہلت دی تھی۔
تاہم، لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو کے 29 اکتوبر کے حکم نامے کے مطابق، محمد عثمان ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں اور انہیں تین دن کے جسمانی ریمانڈ پر رکھا گیا ہے۔ انہیں ہفتے کو ضلعی عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق، محمد عثمان کو دیگر افسران کے ساتھ ملی بھگت، اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت لینے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ یہ مقدمہ یوٹیوبر سعد الرحمٰن عرف “ڈکی بھائی” کی اہلیہ عروب جتوئی کی شکایت پر درج ہوا، جنہیں سوشل میڈیا پر جوا ایپس کی تشہیر کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس مقدمے میں محمد عثمان کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد سے چھ دیگر این سی سی آئی اے اہلکار بھی نامزد ہیں، جن میں اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز خان اور انسپکٹر سلمان عزیز شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 109 اور 161 کے ساتھ ساتھ انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 5(2)47 بھی شامل کی گئی ہے۔ ان دفعات کے تحت سرکاری ملازمین کی مجرمانہ بدعنوانی اور ناجائز معاوضے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لاہور این سی سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سعد الرحمٰن کے اہلِ خانہ سے کل 90 لاکھ روپے رشوت وصول کی۔ اس میں 60 لاکھ روپے ریلیف فراہم کرنے کے بہانے اور 30 لاکھ روپے عدالتی ریمانڈ کے لیے لیے گئے۔
رشوت کی رقم مختلف افراد اور طریقوں سے تقسیم کی گئی: 50 لاکھ روپے قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر زوار احمد کے دوست کے پاس امانتاً رکھوائے گئے، 5 لاکھ روپے سلمان عزیز، وکیل چوہدری عثمان اور ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز کو دیے گئے، جبکہ شعیب ریاض نے خود 20 لاکھ روپے اپنے پاس رکھے۔ مزید 3 لاکھ 26 ہزار 420 ڈالر سعد الرحمٰن کے اکاؤنٹ سے بائننس کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزمان ایک نیٹ ورک کی شکل میں کام کر رہے تھے، جو ہر ماہ آن لائن فراڈ میں ملوث کال سینٹرز، کمپنیوں اور افراد سے رشوت وصول کرتے، اپنے حصے رکھنے کے بعد باقی رقم اپنے اعلیٰ افسران کو منتقل کرتے۔
لاہور کے ڈائریکٹر زوار احمد اور سرفراز ہر ماہ تقریباً 10 لاکھ روپے اسلام آباد میں موجود دو ڈپٹی ڈائریکٹرز، محمد عثمان اور ایاز کو بھیجتے، جو یہ رقم اعلیٰ سطح تک پہنچاتے تھے۔
اس مقدمے کی تفتیش ایف آئی اے لاہور اینٹی کرپشن سرکل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید زین العابدین کو سونپی گئی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سی سی ا ئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر اسلام ا باد ایف ا ئی اے ایف ا ئی ا لاکھ روپے کیا گیا
پڑھیں:
ڈکی بھائی کی فیملی سے کروڑوں روپے رشوت لینے کا الزام سامنے آگیا
یوٹیوبر ڈکی بھائی کی اہلیہ عروب جتوئی کی مدعیت میں درج مقدمے میں سرکاری افسران پر لاکھوں روپے رشوت لینے کا الزام سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے متعدد افسران پر رشوت لینے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔
یہ مقدمہ معروف یوٹیوبر سعد الرحمٰن المعروف ڈکی بھائی کی اہلیہ عروب جتوئی کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یوٹیوبر کے خاندان سے مجموعی طور پر 90 لاکھ روپے رشوت کے طور پر وصول کیے گئے۔
ایف آئی آر کے مطابق تفتیشی افسر نے ڈکی بھائی کو ریلیف دلوانے کے عوض 60 لاکھ روپے وصول کیے، جو ان کے ایک فرنٹ مین کے ذریعے لیے گئے، اور یہ رقم یوٹیوبر کے دوست عثمان نے ادا کی۔ بعدازاں، مبینہ طور پر ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ کروانے کے لیے مزید 30 لاکھ روپے طلب کیے گئے۔
دستاویزات میں یہ بھی درج ہے کہ مذکورہ افسر نے 50 لاکھ روپے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے ایک کار شو روم مالک کے پاس رکھوائے، 20 لاکھ روپے اپنے پاس رکھے اور ایڈیشنل ڈائریکٹر کو 5 لاکھ روپے ادا کیے۔ مقدمے میں افسران پر اختیارات کے غلط استعمال اور رشوت خوری کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق مجموعی طور پر نو افسران کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جن میں سے چھ افسران کئی دنوں تک لاپتا رہے۔
آج لاہور کی عدالت میں چھ گرفتار افسران کے وکیل نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ایک درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان کے موکلوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ نہ اہلِ خانہ کو ملاقات کی اجازت دی گئی اور نہ ہی ایف آئی آر کی کاپی فراہم کی گئی جو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 10اے، پولیس رولز 1934، پولیس آرڈر 2002 اور متعلقہ ایس او پیز کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں یہ بھی مؤقف پیش کیا گیا کہ قانون کے مطابق گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرنا لازم ہے، مگر ایسا نہیں کیا گیا، جو کرمنل پروسیجر کوڈ 1898 کے سیکشن 167 اور آئین کے آرٹیکلز 10 اور 10اے کے برخلاف ہے۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر کو ہدایت دی جائے کہ افسران کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ منصفانہ کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔
ذرائع کے مطابق، چوہدری سرفراز کو گزشتہ ماہ مختلف تنازعات کے باعث عہدے سے ہٹا کر ہیڈکوارٹر اسلام آباد رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جہاں سے انہوں نے بعد ازاں چھ ماہ کی رخصت کی درخواست دی۔ ان کے نام سے جڑے تنازعات میں یوٹیوبرز، سوشل میڈیا انفلوئنسرز، بشمول ڈکی بھائی اور رجب بٹ کے خلاف مبینہ تحقیقات شامل تھیں، جو آن لائن ٹریڈنگ اور جوئے کی ایپس سے متعلق معاملات سے جڑے ہوئے تھے۔
مزید برآں، بعض تنازعات وکلا، صحافیوں اور پولیس افسران کے درمیان جھڑپوں سے بھی متعلق تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ لاپتا افسران کی گمشدگی دراصل سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور ان کے مالی جرائم کی جاری تحقیقات سے وابستہ ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو پولیس کو ہدایت دی تھی کہ لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کو ایک ہفتے کے اندر تلاش کیا جائے۔ یہ ہدایت روزینہ عثمان کی درخواست پر دی گئی، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 14 اکتوبر کو چار مسلح افراد نے ان کے شوہر کو اغوا کیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار خود بھی کیس کی پیروی کے دوران لاپتا ہو گئی ہیں، جس پر عدالت نے پولیس سے تازہ رپورٹ طلب کرلی۔