پہلے ہی معلوم تھا کہ مذاکرات کا اختیار کابل حکومت کے پاس نہیں: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ابتدائی دنوں ہی سے واضح تھا کہ افغان مذاکراتی معاملات کا حتمی اختیار کابل حکومت کے پاس نہیں ہے اور اس پس منظر میں مذاکرات میں مستقل پیش رفت ممکن نہیں رہی۔
نجی ٹی ویی کو دئے گئے بیان میں وزیرِ دفاع خواجہ خواجہ آصف نے افغان طالبان کے کردار اور بھارت کے ممکنہ اثر و دخل پر تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا کنٹرول پورے افغانستان پر مکمل نہیں اور صرف ایک گروہ کی زبانی یقین دہانیوں پر مبنی اعتماد بے جا ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ جب بھی معاملات معاہدے کے نزدیک پہنچے، کابل سے رابطوں کے بعد معاملات پھر تعطل کا شکار ہوتے رہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ حتمی فیصلے کسی اور مرکز سے ہورہے ہیں۔
وزیرِ دفاع نے بتایا کہ جب سے افغان طالبان اقتدار میں آئے ہیں، پاک افغان سرحدی علاقوں میں حملوں اور بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ اُن کا مؤقف تھا کہ اس پس منظر میں کوئی شبہ نہ ہونا چاہیے کہ طالبان کی جانب سے بھارت کی طرف سے ایک پراکسی جنگ جیسی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت نے جو فوجی و سیاسی ہزیمت اٹھائی ہے، اب وہ کابل کے ذریعے تلافی کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کڑا لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسلام آباد کی طرف کسی نے زیادتی کی نیت سے نظر اٹھائی تو ہم سخت جواب دیں گے۔
مذاکراتی معاملات پر انہوں نے تسلیم کیا کہ افغان مذاکراتی وفد نے محنت کی اور متعدد بار معاہدے کے نزدیک پہنچنے کی نوبت آئی، مگر کابل کی طرف سے فون کالز اور پھر لاچاری کی شکایات نے عملدرآمد کو متاثر کیا۔ خواجہ آصف نے کہا، “مجھے افغان مذاکراتی وفد سے ہمدردی ہے، انہوں نے کافی محنت کی؛ تاہم جو تاریں کابل میں بیٹھ کر کھینچی جارہی تھیں، ان کا کنٹرول بھارت سے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔”
وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ پاکستان نے مذاکرات میں شفافیت اختیار رکھی اور صوبائی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ فیصلوں میں پارلیمنٹ اور متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا کی منتخب حکومت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ صوبائی حکومت کا احترام ان کا اصولی مؤقف ہے اور یہ سمجھنے کی غلط فہمی نہ ہو کہ پی ٹی آئی یا وفاقی سطح پر کوئی غیرآئینی عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات کی تردید بھی کی کہ حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے میں مائل ہے۔
ماضی میں طالبان کی حمایت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ جو بھی عناصر کسی بھی مقام پر طالبان کی حمایت کے مرتکب ہوئے، چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے میں ہوں، ان کے خلاف مقدمہ چلا کر سزا دلوانی چاہیے۔
آخر میں وزیرِ دفاع نے کہا کہ اگر پاکستان اہلِ فلسطین کی حفاظت کے لیے کوئی مثبت کردار ادا کر سکے تو یہ ملک کے لیے خوش آئند ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خواجہ آصف نے آصف نے کہا انہوں نے تھا کہ کیا کہ کہا کہ
پڑھیں:
استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا تیسرا مرحلہ 18 گھنٹے جاری، کابل کی ہدایات نے پیش رفت روک دی
اسلام آباد (طارق محمود سمیر) استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا مرحلہ 18 گھنٹے طویل اجلاسوں کے بعد بغیر کسی حتمی نتیجے کے اختتام پذیر ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان طالبان کے وفد نے متعدد مواقع پر پاکستان کے اس مؤقف سے اتفاق کیا کہ خوارج (ٹی ٹی پی) اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ، یقینی اور مشترکہ کارروائی ناگزیر ہے۔
ذرائع کے مطابق افغان وفد نے میزبانوں کی موجودگی میں بھی اس بنیادی نکتے کو درست تسلیم کیا، تاہم ہر بار کابل سے موصول ہونے والی ہدایات کے بعد ان کا مؤقف تبدیل ہو جاتا رہا، جس کے باعث بات چیت بار بار تعطل کا شکار ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران کابل سے ملنے والے غیر منطقی اور ناجائز مشورے ہی مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کی اصل وجہ بنے۔ اس کے باوجود پاکستان اور میزبان فریقین اب بھی معاملے کو سنجیدگی، تدبر اور سفارتی دانشمندی سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ایک آخری کوشش جاری ہے تاکہ طالبان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کسی منطقی اور پرامن راستے سے مسئلہ حل کیا جا سکے۔ مذاکرات کے ایک ممکنہ آخری دور کی تیاریوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔