اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 9 مئی کو 4 گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملوں کی تفصیل بیان کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پانچ بج کر چالیس منٹ پر شام کو کور کمانڈر لاہور پر حملہ ہوا، شام پانچ چالیس سے لیکر 9 بجے تک لاہور کور غیر فعال رہی، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی، رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو نو مئی کو ہوا، جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، اٹارنی جنرل  نے مؤقف اختیار کیا کہ 9 مئی کے جرم سے کسی کو انکار نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے۔ جناح ہائوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی۔ تین اعلیٰ افسروں کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، بغیر پینشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک بریگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ ان 14 افسروں کو آگے ترقی نہیں ملے گی، جسٹس جمال مندوخیل  نے استفسار کیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کے خلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی نو مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی ہو گی۔ جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خود کو آگ لگائی خودسوزیاں کیں۔ کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا جناح ہائوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کو چیک کر کے بتائوں گا کیسے ہوا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نو مئی کو جو ہوا جرم کی نیت سے ہی ہوا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ  کرنے کی؟۔ ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا؟  حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کر گیا۔اٹارنی جنرل منصور نے کہا کہ نو مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا،  جسٹس نعیم اختر افغان  نے ریمارکس دیے آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں،  ہم نے نو مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی، میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، نو مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے۔جسٹس نعیم اختر افغان  نے کہا کہ نو مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کیلئے دینا ممکن نہ ہوں، کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والا جنرل کور کمانڈر لاہور تھا؟  اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا۔جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے، ترمیم کی گئی، قانون میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی۔اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں سے سزائوں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں، اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے باقیوں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دینگے، آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے۔جسٹس مسرت ہلالی  نے کہا کہ بیس منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کیلئے رکھے گئے ہونگے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں ، اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اپیل کا حق دینے کیلئے سپریم کورٹ کا آئینی بنچ آبزرویشن دے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے،  سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اس فیصلے میں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ جب قانون ہی کالعدم ہو گیا تو اپیل کا سوال ہی نہیں ہے،  جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے،  جسٹس امین الدین خان  نے کہا کہ شارٹ آرڈر اسی ہفتے میں جاری کریں گے۔ دوسری جانب آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل ایف بی آر سے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے بغیر آپ  سپر ٹیکس لگا سکتے ہیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتا دیں کہ یہ ٹیکس آرٹیکل 173 کے تحت ہی لگایا تھا یا نہیں؟ وکیل ایف بی آر رضا ربانی نے کہا کہ ٹیکسیشن کا پورا طریقہ کار آرٹیکل 173 میں واضح کیا گیا ہے، خزانہ کی قائمہ کمیٹی پہلے بجٹ کے حوالے سے طے کرتی ہے، خزانہ کمیٹی اسے ایوان بالا میں بھیجتی ہے وہاں سے پھر بجٹ اپروو ہوتا ہے۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دئیے کہ سپر ٹیکس سے جمع کی گئی رقم کس طرح تقسیم ہوتی ہے، کیا قانون سازی کے بغیر آپ سپر ٹیکس لگا سکتے ہیں؟ وفاقی مجموعی بجٹ کو کس طرح استعمال کرنا ہے یہ آرٹیکل 175 میں بتایا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نے استفسار کیا کہ نے ریمارکس دیے کہ کور کمانڈر لاہور سپر ٹیکس کیا گیا کی گئی مئی کو

پڑھیں:

علیمہ خان پر انڈہ پھینکنے، عمران خان کے جیل مسائل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن)ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فرحت جبین رانا نے علیمہ خان پر انڈہ پھینکنے اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو جیل میں ہراساں کیے جانے کے خلاف دائر دو الگ الگ درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق پہلی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ علیمہ خان پر انڈہ پھینکنے والی خاتون اور اس کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ درخواست گزار کے مطابق واقعے کے وقت صدر بیرونی پولیس کے ایس ایچ او اور سب انسپکٹر اعزاز موقع پر موجود تھے، جنہوں نے حملہ آور خاتون کو بھگا دیا۔

خیبرپختونخوا پولیس کا سوشل میڈیا پر فحش ویڈیو ز شیئرکرنے والوں کیخلاف کریک ڈاون جاری 

درخواست میں کہا گیا کہ علیمہ خان اور ان کی فیملی کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کی مبینہ پشت پناہی سے حملہ آور فرار ہوئی۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ حملہ آور خاتون، اس کے سہولت کاروں اور ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

دوسری درخواست میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل میں مبینہ طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر جیل سپرنٹنڈنٹ غفور انجم اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سبطین انہیں ہراساں کرتے ہیں۔

اسلام آباد: 26 نومبر احتجاج کیس میں 11 گرفتار ملزمان پر فردِ جرم عائد

درخواست میں کہا گیا کہ مریم نواز اپنی تقاریر میں متعدد بار کہہ چکی ہیں کہ ’’عمران خان میرے کنٹرول میں ہے۔‘‘

مزید کہا گیا کہ عمران خان کو روزانہ 22 گھنٹے آئیسولیشن میں رکھا جاتا ہے، سیل میں بجلی بند رہتی ہے، اور انہیں جیل مینوئل کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ عمران خان کو جیل قوانین کے مطابق سہولیات اور سیکیورٹی دی جائے۔

درخواست میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ جیل کے باہر عمران خان کی بہنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اور انہیں گرفتار کر کے رات گئے ویران جگہوں پر چھوڑا جاتا ہے، جو کہ ایک سنگین سیکیورٹی رسک ہے۔

ویڈیو: "اگر تم مرد ہو تو مجھے طلاق دو" عورت کے اس جملے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟

درخواست میں اے ایس پی زینب، ایس ایچ او اعزاز، ایس ایچ او ثاقب، اور جیل چوکی انچارج سب انسپکٹر سلیم کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور ان سب کے خلاف قانونی کارروائی کی استدعا کی گئی۔

سماعت کے دوران، سرکاری پراسیکیوٹر نے دونوں درخواستوں کو عدالتی وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے مسترد کرنے کی استدعا کی۔ پراسیکیوٹر کا مؤقف تھا کہ جیل سے متعلق شکایات کے لیے متعلقہ فورمز اور ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا جائے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد دونوں درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • مبینہ جعلی ڈگری کیس ،جسٹس طارق نے اسلام ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا
  • جلال پور پیر والا شہر محفوظ، پانی کی سطح میں کمی، موٹروے میں شگاف نہ ڈالنے کا فیصلہ
  • جسٹس بابر ستار کا فیصلہ معطل ! چیئرمین پی ٹی اے عہدے پر بحال
  • اسلام آباد ہائیکورٹ، چیئرمین پی ٹی اے کو ہٹانے کا فیصلہ معطل، عہدے پربحال
  • اسلام آبادہائیکورٹ چیئرمین پی ٹی اے جنرل حفیظ الرحمان کو عہدے پر بحال کردیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: چیئرمین پی ٹی اے کو ہٹانے کا فیصلہ معطل، عہدے پر بحال
  • یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
  • علیمہ خان پر انڈہ پھینکنے، عمران خان کے جیل مسائل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
  • الیکشن کمیشن نے عوامی راج پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخاب کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا