جنات کے ذریعے خاتون اغواءکیس: عدالت آئی جی پنجاب پر برہم، مہلت دیدی
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:۔ لاہور ہائیکورٹ میں مبینہ طور پر “جنات کے ذریعے” خاتون کے اغواءسے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے خاتون کی عدم بازیابی پر آئی جی پنجاب پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اتنا عرصہ گزر گیا مگر پولیس ایک خاتون کو بازیاب نہیں کرا سکی۔ اگر وقت پر تفتیش کر لی جاتی تو یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہی خاتون ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے جنات لے گئے، لیکن نئی بات یہ سامنے آئی ہے کہ وہ اپنا سامان باندھ کر خود گھر سے گئی۔ بادی النظر میں گھر سے ہی سچ سامنے نہیں آ رہا۔
اسی دوران عدالت نے استفسار کیا کہ نادرا میں خاتون کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ عدالت نے نکاح نامے کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نکاح نامے پر انگوٹھا ہوتا ہے، وہاں سے اس کا فنگر پرنٹ کیوں نہیں لیا گیا؟ آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ نکاح نامے پر بھی خاتون کا انگوٹھا موجود نہیں۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا اے آئی سے اسے بازیاب نہیں کیا جا سکتا؟ جس پر آئی جی نے بتایا کہ اے آئی کی مدد سے کئی بچوں کو بازیاب کرایا گیا ہے۔ عدالت نے زبانی یقین دہانیوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عملی اقدامات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ انسانی اسمگلنگ کے مقدمات میں سو سے زائد بچوں کو بازیاب کرایا گیا، پولیس رحیم یار خان، راجن پور اور دیگر صوبوں میں بھی گئی۔ خاتون کا نادرا میں کوئی ریکارڈ نہیں اور نہ ہی اس کے فنگر پرنٹس موجود ہیں۔ خاتون بچے کی پیدائش کے بعد اسے اپنی والدہ کے حوالے کرکے لاپتا ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ مقدمے کے تمام پہلوﺅں، بشمول قتل کے امکان کی بھی تفتیش جاری ہے۔ خاتون کے تمام رشتہ داروں کی سی ڈی آر حاصل کی گئی اور پولی گرافک ٹیسٹ میں بھی کسی کا جھوٹ ثابت نہیں ہوا۔ شیلٹر ہومز، مردہ خانوں اور نادرا ریکارڈ بھی چیک کیا گیا۔ اس پہلو پر بھی تفتیش ہو رہی ہے کہ خاتون خود گئی اور آگے فروخت کر دی گئی۔
عدالت نے آئی جی پنجاب کو خاتون کی بازیابی کے لیے 20 نومبر تک مہلت دیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔ درخواست گزار حمیدہ بی بی نے اپنی بیٹی فوزیہ بی بی المعروف فرزانہ کی بازیابی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ اس کی بیٹی کو جنات لے گئے، جبکہ اغوا کا مقدمہ تھانہ کاہنہ میں فوزیہ کے شوہر اور ساس کے خلاف درج ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عدالت نے
پڑھیں:
عدالت کا خاتون، بچوں کی گرفتاری کےمعاملے میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف اندراج مقدمہ کا عندیہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاہور اور بہاولپور سے خاتون اور بچوں کی گرفتاری کے معاملے میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر کے اندراج کا عندیہ دے دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کریں، پولیس اہلکار واقعہ کی شفاف تحقیقات میں ناکام رہے، پولیس بااثر مدعی کے زیر اثر ہے اور لاہور میں عدالت کی اجازت کے بغیر چھاپہ مارا، پولیس اہکاروں نے ملزمان کیخلاف پولیس مقابلے کی جعلی ایف آئی آر درج کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ پولیس اہلکاروں کی معطلی کا آرڈر جاری کیا جائے، آئی جی اسلام آباد نے پیش ہوکر شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کروائی تھی۔
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ مدعی بااثر بیوروکریٹ ہے، مدعی کو سابق دور میں ایم ڈی پی آئی اے بھی لگایا گیا، مدعی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولیس نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔
عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔