’’جوڈیشل کمیشن کے پاس تبادلے کا اختیار نہیں‘‘ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کمیشن کے پاس تبادلے کا کوئی اختیار نہیں۔
ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آئین کے آرٹیکل کی ہم آہنگ تشریح کرے۔ آرٹیکل 200 اور آرٹیکل 175 میں ٹکراؤ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے پاس تبادلے کا کوئی اختیار نہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خالی جج کی سیٹ پر مستقل تبادلہ نہیں ہو سکتا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی نمبر 3 کے جج کی انرولمنٹ اسلام آباد بار کونسل کی ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا ماضی میں کسی جج کا آرٹیکل 200 کے تحت تبادلہ ہوا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں ججز ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں۔ ججز ٹرانسفر میں صدر اور وزیر اعظم کا کردار محدود ہے۔ ججز ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس صاحبان بھی شامل ہیں۔ ججز ٹرانسفر کے عمل میں بد نیتی منسوب نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کا ایک پورا طریقہ آرٹیکل 200 میں دیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس اور بزنس رولز کیخلاف کوئی استدعا نہیں کی گئی۔
وکیل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ کبھی نہیں کہا تبادلہ پر آئے ججز ڈیپوٹیشنسٹ ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ لکھا گیا ہے۔ ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کیسے کہا جا سکتا ہے؟۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کارروائی مکمل کرلی۔ عدالتی عملے کے مطابق ججز ٹرانسفر کیس کا مختصر حکم نامہ آج جاری کردیا جائے گا۔
واضح رہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر ،جسٹس محمد آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کا اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوا تھا۔ 3 ججز کے ٹرانسفر کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے 5 ہائی کورٹ ججز میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔
ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر 19 سماعتیں ہوئیں، پہلی سماعت 17 اپریل کو ہوئی تھی جب کہ سپریم کورٹ میں 20 فروری کو درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ججز ٹرانسفر کیس ججز ٹرانسفر کی جسٹس محمد علی سپریم کورٹ اسلام آباد نے کہا کہ
پڑھیں:
ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پروسس ہے‘ جج عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ہے جبکہ بنچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، صدر کے اختیار سے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئین میں لکھی ہرلائن کا مطلب اور مقصد ہے۔ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سینیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی، جج ہائیکورٹ میں تبادلہ پر آ گیا تو اس کی پہلی سینیارٹی کا کیا ہوگا؟انہوں نے یہ ریمارکس پیرکے روزدیے ہیں۔ ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی وضاحت کا اطلاق صرف ذیلی سیکشن 3 پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول سروس میں اگر ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں تبادلہ ہو تو سینیارٹی متاثر ہوتی ہے، جبکہ عدلیہ میں نہ تو ڈیپوٹیشن کا اصول ہے اور نہ ہی کسی جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول رائج ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمہ میں ضم کرنے کا اصول ضرور موجود ہے، عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں ججز کے تبادلے کے وقت رضامندی نہیں لی جاتی اور سینیارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس پر صلاح الدین نے کہا کہ اگر رضامندی لی جا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سینیارٹی میں تبدیلی ممکن ہے۔وکیل نے دلائل دیے کہ اگر سروس اسٹرکچر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کیڈر ایک ہو تو سینیارٹی متاثر نہیں ہوتی، لیکن اگر کیڈر الگ ہو تو سینیارٹی متاثر ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہاں معاملہ ججز ٹرانسفرز اور سینیارٹی کا ہے، اس لیے اس پر براہ راست سول سروس رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر کسی پر تبادلہ مسلط کیا جائے اور سینیارٹی متاثر ہو تو یہ ناانصافی ہوگی۔صلاح الدین احمد نے کہا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ہندوستانی ہائی کورٹس میں ججز کے تبادلے ہوئے، دہلی ہائیکورٹ کے سینئر جج کو کرناٹک ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔ ججز ٹرانسفر کیس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے متفرق درخواست دائر کردی۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل نے کوئی درخواست دائر کی ہے؟امجد پرویز نے کہا کہ میں نے 1947سے 1976تک ججز ٹرانسفر کی مکمل تاریخ پیش کی ہے،ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27اے کا نوٹس ہوا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے،آپ کو اٹارنی جنرل کے بعد دلائل دینے چاہئیں تھے،آپ کو نہیں پتہ 27اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟عدالت نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ رجسٹرارنے کمنٹس جمع کروائے ہیں تو آپ مرکزی فریق ہیں،جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہاکہ بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل ختم ہوں تو آپ کو سنیں گے ، جسٹس محمدعلی مظہر نے کہاکہ چیف جسٹس پاکستان تبادلہ نہ چاہیں تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے،صدر کے اختیارسے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئین میں لکھی ہرلائن کا مطلب اور مقصد ہے،جوڈیشل کمیشن کی نامزدگی پر کیا صدر انکار کرسکتا ہے؟بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ رولز کے مطابق انتظامی کمیٹی میں تین سینئر ججز شامل ہوتے تھے۔ ٹرانسفر کے بعد جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم سومرو کمیٹی میں شامل ہو گئے، جبکہ ان کے پاس صرف دو دن کا تجربہ تھا۔ بعد ازاں رولز میں ترمیم کی گئی اور چیف جسٹس کے ساتھ دو دیگر ججز کو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔