اسلام آباد میں جوڈیشل کمیشن نے اکثریتی رائے سے سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کی مدت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی، جو اب 30 نومبر 2025 تک کام کرے گی۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جوڈیشل کمیشن (جے سی پی) نے اکثریتی ارکان کی منظوری سے سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کی مدت 30 نومبر 2025 تک بڑھا دی، اس بینچ کی مدت رواں ماہ ختم ہونے والی تھی۔

26ویں آئینی ترمیم کے تحت، 5 نومبر 2024 کو سات رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس کی ابتدائی مدت 60 دن مقرر کی گئی تھی۔

بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔

بعد ازاں دسمبر میں اس بینچ کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی تھی۔

فروری میں بینچ کو توسیع دے کر اس کے ارکان کی تعداد 13 کر دی گئی تھی، جن میں جسٹس ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پہنور، جسٹس شکیل احمد، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس اشتیاق ابراہیم کو شامل کیا گیا۔

جے سی پی نے جمعرات کو دو اجلاس منعقد کیے، پہلے اجلاس کے ایجنڈے میں آئینی بینچ کی مدت میں توسیع اور آئین کے آرٹیکل 175A(20) کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کے جائزے کے لیے مؤثر معیار کے اصول وضع کرنے سے متعلق پالیسی کی منظوری شامل تھی۔

دوسرے اجلاس میں جے سی پی نے سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت اور اس کی تشکیل کا جائزہ لیا۔

جمعرات کے پہلے اجلاس میں جے سی پی نے اکثریتی رائے سے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت رواں سال نومبر کے آخر تک بڑھانے کی منظوری دی۔

کمیشن نے 23 جولائی سے مزید چھ ماہ کے لیے توسیع کی منظوری دی اور جسٹس عدنان اقبال چوہدری اور جسٹس جعفر رضا کو نامزد کیا، جب کہ جسٹس آغا فیصل اور جسٹس ثنا اکرم منہاس کی جگہ لی گئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی نے تمام ہائی کورٹس کے ججوں کی عدالتی کارکردگی کے جائزے کے لیے ایک وسیع البنیاد کمیٹی بھی تشکیل دی۔

اس کمیٹی میں عدلیہ، پارلیمنٹ، انتظامیہ اور قانونی برادری کے نمائندے شامل ہوں گے اور یہ ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کے جائزے کے لیے قواعد کا مسودہ تیار کرے گی۔

بعد ازاں، جے سی پی نے اگلے ماہ ایک اور اجلاس بلانے کا نیا ایجنڈا جاری کیا تاکہ اسلام آباد، سندھ، پشاور اور بلوچستان کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی تقرری پر غور کیا جا سکے۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: آئینی بینچ کی مدت سپریم کورٹ جے سی پی نے کی منظوری ہائی کورٹ اور جسٹس کورٹ کے کے لیے

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکتے ہوئے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلہ تک بطور جج کام کرنے سے روکنے کا حکم دیدیا اور سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ اور اشتر علی اوصاف کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کرلی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کے خلاف میاں داؤد کی درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت پیش نہ ہوئے اور معاون وکیل کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے، ایسی درخواستوں سے خطرناک ٹرینڈ قائم ہوگا، سپریم کورٹ کے دو فیصلے اس حوالے سے موجود ہیں، لہٰذا اس درخواست پر اعتراضات برقرار رہنے چاہئیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حق سماعت کسی کا بھی حق ہے لیکن ہمیں آفس کے اعتراضات کو دیکھنا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟، عدالت نے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہونے کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک سماعت ملتوی کر دی۔ اسلام آباد بار کونسل نے ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے معاملے پر آج بدھ کو ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے جنرل باڈی اجلاس بھی طلب کرلیا۔ حکمنامہ کے بعد ججز کا نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کردیا گیا۔ نئے ڈیوٹی روسٹر میں جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل نہیں ہیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری کا ڈویژن بینچ اور سنگل بنچ بھی ختم کردیا گیا۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعظم خان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے، جسٹس اعظم خان کی اسلام آباد جوڈیشل سروس میں مستقلی اور بعد ازاں ترقی غیرقانونی ہے۔ جبکہ رولز کے تحت صرف وہی ججز مستقل کیے جا سکتے تھے جو پہلے سے اسلام آباد جوڈیشل سروس میں کام کر رہے تھے۔ بعد میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے ججز کو مستقل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کر لی گئی ہے۔واضح رہے مذکورہ کیس میں فاضل جج کی تعلیمی اسناد کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز اسحاق کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز اسحاق خان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر
  • عدلیہ میں تناؤ: ہائیکورٹ کے 5 ججز چیف جسٹس کے اقدامات سپریم کورٹ لے گئے
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج طارق جہانگیری‘ محسن اختر کیانی، بابر ستار، ثمن رفعت اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکری
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا
  • جسٹس طارق جہانگیری کو عہدے سے ہٹانے کے معاملے میں اہم پیش رفت
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا