مودی کو پہلگام حملے کی انٹیلی جنس رپورٹ تین دن پہلے ہی ملی تھی، ملکارجن کھرگے
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
کانگریس صدر نے کہا کہ مودی حکومت نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے حوالے سے انٹیلی جنس کی ناکامی کو قبول کیا ہے اور ایسی صورتحال میں اسے 26 لوگوں کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے دعویٰ کیا کہ نریندر مودی کو 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے سے تین دن پہلے ایک انٹیلی جنس رپورٹ ملی تھی، جس کے بعد انہوں نے جموں و کشمیر کا دورہ منسوخ کردیا تھا۔ رانچی میں کانگریس کی "آئین بچاؤ ریلی" سے خطاب کرتے ہوئے ملکارجن کھرگے نے یہ بھی پوچھا کہ اس انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر لوگوں کی حفاظت کو یقینی کیوں نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے حوالے سے انٹیلی جنس کی ناکامی کو قبول کیا ہے اور ایسی صورتحال میں اسے 26 لوگوں کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیئے۔ کانگریس صدر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کانگریس پاکستان کے زیر اہتمام دہشت گردی کے خلاف اٹھائے گئے ہر قدم کی حمایت کرے گی اور حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ 22 اپریل کو جموں و کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردوں نے کم از کم 26 لوگوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا، ان میں زیادہ تر سیاح تھے۔ بھارت نے اس ہولناک واقعے کا الزام پاکستان سے منسلک دہشت گرد گروپوں کو ٹھہرایا ہے۔
پہلگام دہشت گردانہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے ملکارجن کھرگے نے کہا کہ 22 اپریل کو ملک میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ ہوا، جس میں 26 بے گناہ لوگ مارے گئے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے اعتراف کیا کہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی تھی اور اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب آپ کو یہ معلوم ہے تو پہلے مناسب انتظامات کیوں نہیں کئے گئے۔ کانگریس صدر نے زور دے کر کہا کہ جب آپ غلطی قبول کر رہے ہیں، تو آپ کو اتنے لوگوں کی موت کی ذمہ داری بھی لینی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف لڑنے کے لئے جو بھی اقدامات کرے گی ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے بھی یہ اطلاع ملی ہے، اخبارات میں یہ بھی آیا ہے کہ حملے سے تین دن پہلے وہاں سے مودی جی کو انٹیلی جنس رپورٹ بھیجی گئی تھی۔ اسی وجہ سے مودی نے کشمیر جانے کا پروگرام منسوخ کر دیا تھا۔ کانگریس صدر نے سوال کیا کہ جب انٹیلی جنس والوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا جانا مناسب نہیں ہے تو یہ بات وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں، سیکورٹی والوں، پولیس اور بارڈر سیکورٹی فورس کو کیوں نہیں بتائی گئی اور لوگوں کی حفاظت کو کیوں یقینی نہیں بنایا گیا.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دہشت گردانہ حملے انٹیلی جنس رپورٹ کانگریس صدر نے نے کہا کہ لوگوں کی اپریل کو انہوں نے کیا کہ
پڑھیں:
انسانی حقوق کونسل: پہلگام حملے پر بھارت اور پاکستان میں بحث
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ 22 اپریل کو ہونے والا حملہ اور اس کے بعد ہونے والی کارروائیاں اب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بحث کا موضوع بنتی جار ہی ہیں۔
جنیوا میں بھارتی مشن نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل (یو این ایچ آر سی) میں پاکستان کے خلاف اپنے حملوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس کا آپریشن سیندور "دہشت گردی" کے خلاف ایک کارروائی تھی۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ پر انٹرایکٹو ڈائیلاگ کے دوران بھارت کی جانب سے یہ معاملہ اٹھایا گیا اور پھر جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے نمائندے منیب احمد نے بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگایا۔
(جاری ہے)
وزیر اعظم مودی کی صدر ٹرمپ سے فون پر کیا بات ہوئی؟
پاکستانی سفارت کار کا کہنا تھا کہ نئی دہلی نے پہلگام واقعے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبات کو مسترد کر دیا اور تحمل کی بین الاقوامی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جارحیت کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان نے مزید کیا کہا؟دونوں ملکوں کی جانب سے یہ بات چیت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جاری اجلاس کا ایک حصہ تھی۔
پاکستان کے کئی صوبے بھارت میں ضم ہوجائیں گے، آر ایس ایس
پاکستان کے نمائندے منیب احمد نے کہا، "اس سے پہلے کہ بھارت خود اپنی تفتیش عوام کے سامنے رکھتا، بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے خلاف اپنے ظلم کو تیز کر دیا۔
اس سے بھی بدتر، بھارت نے پاکستان میں شہریوں، رہائش گاہوں اور عبادت گاہوں پر جان بوجھ کر اور بلاجواز فوجی حملے کیے۔"انہوں نے مزید کہا، یہ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر خطوں پر بھارتی قبضے کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستانی مندوب نے اس موقع پر جموں و کشمیر کے تنازعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا حل ہی جنوبی ایشیا میں دیرپا امن اور خوشحالی کی کلید ہے اور مستقبل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بہترین تحفظ بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا، "جموں و کشمیر کا علاقہ بھارت کا نام نہاد اٹوٹ حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہو گا۔ یہ ایک بین الاقوامی سطح پر اس وقت تک تسلیم شدہ متنازع علاقہ رہے گا جب تک کہ جموں و کشمیر کے لوگ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے مطابق اپنے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کا استعمال نہیں کر لیتے۔"
عالمی جوہری طاقتوں کی فہرست اور ہتھیاروں کی تعداد
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کے خطرے کے لیے بھارت کی حمایت پر بات کرنے کے لیے تیار ہے اور نئی دہلی کے برعکس، "ہمارے پاس اس پر بات چیت کرنے کے ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں۔
"ان کا کہنا تھا، "ہم بھارت پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان یا مسلمانوں پر الزام لگانے کے بجائے وہ اپنے ہندوتوا کی بالادستی کی پالیسی کے حصول پر نظرثانی کرے، کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو برقرار رکھے اور اہم بات یہ ہے کہ اپنے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کے ساتھ ایک نارمل ملک کی طرح برتاؤ کرے۔"
بھارت نے کیا کہا تھا؟اس سے قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) میں بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے سفارت کار چھتیج تیاگی نے الزام لگایا کہ پاکستان "جہادی دہشت گردی کا مرکز" ہے۔
تیاگی کا مزید کہنا تھا، "جب کوئی ریاست بے گناہوں کا قتل عام کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے، تو پھر دفاعی کارروائی صرف ایک حق نہیں، بلکہ یہ ایک سنجیدہ فرض بن جاتا ہے۔"
پاکستانی آرمی چیف سے متعلق کانگریس کے بیان پر بی جے پی برہم
بھارت کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے انسداد دہشت گردی آپریشن کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ہی وہ انتہا پسند گروپوں کی اپنی حمایت سے بین الاقوامی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی مندوب کا کہنا تھا کہ پاکستان نے آپریشن سیندور کو جارحانہ کارروائی کے طور پر پیش کرنے کی گمراہ کن کوشش کی ہے۔ تیاگی نے کہا کہ یہ کارروائی "دہشت گردی" کے حملوں کے پیش نظر براہ راست خطرے اور ضرورت کے تحت ایک "صحیح اور متناسب" جواب ہے۔
ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازع پر ثالثی کی باضابطہ پیشکش
بھارت اور پاکستان کی سفارتی کوششیںخیال رہے کہ اپریل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک حملے میں 26 سیاح ہلاک ہو گئے۔
بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان میں مقیم گروپوں پر لگایا، جس کی اسلام آباد نے سختی سے تردید کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔اس واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان چار دنوں تک میزائل اور ڈرون حملے ہوئے اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں دونوں طرف مزید شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔ اور دونوں حریفوں کے درمیان باضابطہ جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ میں فائر بندی ہوئی جو اب تک جاری ہے۔بھارت 'جھگڑنے والی ایک بے قابو طاقت' ہے، پاکستانی وفد
پاکستان نے بھارت پر جارحیت کا الزام لگایا جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں پاکستان پر حملہ کیا۔ ان واقعات کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے اعلی سطحی وفود مختلف مغربی ممالک کو روانہ کیے تاکہ وہ بین الاقوامی برادری کو اپنے اپنے موقف کے مطابق قائل کر سکیں۔
یہ سلسلہ عالمی اداروں میں بھی جاری ہے اور جنیوا میں انسانی حقوق کے کمیشن میں سب سے پہلے پاکستان نے بھارتی جارحیت کا معاملہ اٹھایا، جس کا بھارت نے جواب دیا اور پھر پاکستان نے دوبارہ جواب دیا۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)