UrduPoint:
2025-11-09@09:27:41 GMT

پاکستان میں بھارتی افواج کے اہداف کیا تھے؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

پاکستان میں بھارتی افواج کے اہداف کیا تھے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مئی 2025ء) بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کیے گئے حملوں کا ہدف ''دہشت گردوں‘‘ کے ٹھکانے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ بنیادی طور پر دو گروہوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں لشکر طیبہ اور جیش محمد شامل ہیں۔

تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہبھارتی حملے دراصل شہری علاقوں میں کیے گئے، جن کے نتیجے میں عام شہری ہی مارے گئے۔

آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کی تاریخ کیا ہے؟

لشکر طیبہ کیا ہے؟

لشکر طیبہ جسے ''پاک لشکر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، عالمی سطح پر ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1987 میں حافظ سعید نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔

(جاری ہے)

اس عسکریت پسند تنظیم کی اساس کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف لڑائی پر مرکوز ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق یہ گروہ سن 1993 سے متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، جن میں نومبر سن 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملے بھی شامل ہیں۔

اس خونریز کارروائی میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حافظ سعید ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔

بھارتی فورسز نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستان میں کی گئی اپنی تازہ کارروائیوں میں لاہور کے قریب مریدکے میں واقع 'مرکز طیبہ‘ کو بھی نشانہ بنایا، جو مبینہ طور پر لشکر طیبہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔

بھارت کے مطابق ممبئی حملہ آوروں کو تربیت اسی سینٹر میں دی گئی تھی۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس گروپ پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اسے غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ حافظ سعید سن 2019 میں گرفتار ہوئے اور انہیں دہشت گردی کی مالی معاونت کے کئی مقدمات میں 31 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

جیشِ محمد کی تاریخ کیا ہے؟

پنجاب میں قائم جیش محمد کی بنیاد مسعود اظہر نے سن 1999 میں اس وقت رکھی، جب انہیں بھارت میں قید سے ایک فضائی جہاز کے اغوا کے بدلے رہائی ملی۔

اس طیارے کو اغوا کرکے افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا تھا۔

پاکستان نے سن 2002 میں اس گروپ پر پابندی لگا دی تھی تاہم امریکا اور بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ تنظیم اب بھی کھلے عام کام کر رہی ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے بہاولپور میں واقع 'مرکز سبحان اللہ‘ پر حملہ کیا، جو جیش محمد کا مرکزی دفتر قرار دیا جاتا ہے۔

یہ گروپ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔

تاہم گزشتہ برسوں میں وادی کشمیر میں پرتشدد کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔

مسعود اظہر طویل عرصے سے منظرِ عام سے غائب ہیں، لیکن وقتاً فوقتاً ان کے بہاولپور کے قریب موجود ہونے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں، جہاں وہ مبینہ طور پر ایک مذہبی ادارہ چلاتے ہیں۔

جیش محمد نے بدھ کے روز تصدیق کر دی کہ بھارتی حملوں میں اس تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر کے 10 رشتہ دار اور ساتھی ہلاک ہوئے ہیں۔ تنظیم کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ ہلاکتیں بہاولپور میں جیش محمد کے مبینہ ہیڈ کوارٹر 'مرکز سبحان اللہ‘ پر کیے گئے حملے کے نتیجے میں ہوئیں۔

ادارت: شکور رحیم

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز

ریاض احمدچودھری

شدت پسند مودی حکومت کے دور میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا، حالیہ ہندو مسلم فسادات نے بھارت میں مذہبی رواداری اور جمہوریت کے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ کانپور سے شروع ہونے والے مذہبی تنازع نے 4 ستمبر کو بڑے فسادات کی شکل اختیار کر لی جسے مبصرین نے "گجرات ٹو” قرار دیا ہے، یہ آگ تیزی سے دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گئی۔ فسادات کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں متعدد معصوم مسلمان زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت کا ہندوتوا ایجنڈا بھارت کو فاشزم کی تجربہ گاہ میں بدل چکا ہے، نہ صرف اظہارِ رائے بلکہ مذہبی آزادی بھی اب مکمل طور پر ہندوتوا نظریے کی تابع بنا دی گئی ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی کی سیاست نے بھارت کو مذہبی منافرت اور ریاستی جبر کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
سال 2025ء کی آمد پر بھارتی ریاست منی پور میں خونریزی اور نسلی فسادات کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے، جہاں مسیحی برادری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ منی پور کے علاقے امپھال میں عسکریت پسندوں نے حالیہ حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں کئی افراد اپنے گھروں کو چھوڑرہے ہیں۔ان حملوں میں عسکریت پسندوں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا۔ حملوں کے بعد، کوکی قبائل کے افراد نے بھارتی فورسز اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا، اور ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے گاؤں والوں کو لوٹا۔ مقامی رہنماؤں کا الزام ہے کہ مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نہتے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔کوکی قبائل کے افراد نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کی متصبانہ پالیسیوں اور فرقہ وارانہ حکمت عملیوں کے باعث منی پور میں حالات مزید بگڑ چکے ہیں، اور مقامی لوگوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ منی پور میں نسلی اور مذہبی کشیدگی کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی اور عدم مداخلت کی وجہ سے ریاست میں امن و سکون کی فضا متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی حکومت سے فوری طور پر مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ اقلیتی برادریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک؛ 2002 کے گجرات قتل عام سے لے کر 2020 کے دہلی فسادات تک؛ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک؛ گاؤ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے—ہندوستان کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے۔
بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت مسلم ثقافت، مذہبی ورثے اور تاریخی شناخت کو نشانہ بنانے کی منظم مہم پر گامزن ہے۔ مودی سرکار کی یہ پالیسیاں بھارت کو ”ہندو راشٹر” میں تبدیل کرنے کے انتہاء پسندانہ ایجنڈے کی عکاس ہیں۔مودی حکومت کے تحت مساجد کی شہادت، تاریخی عمارتوں پر قبضے اور مسلمانوں سے منسوب شہروں کے نام تبدیل کرنے جیسے اقدامات میں تیزی آ گئی ہے، جو بھارتی مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور سیاسی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔دی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی ریاست اْتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضلع لکھیم پور کھیری کے علاقے مصطفیٰ آباد کا نام بدل کر کبیر دھام رکھنے کا اعلان کیا ہے۔مقامی ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصطفی آباد کا نام کبیر دھام رکھا جائے گا۔یوگی آدتیہ ناتھ کا الزام ہے کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ایودھیا کا نام فیض آباد، اور پریاگ راج کا الہٰ آباد رکھا تھا۔اب مودی حکومت تاریخی مقامات کے نام ہندو مذہب سے منسوب کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ فنڈز اب قبرستانوں کی چاردیواری کی تعمیر کے بجائے ہندو عقیدے اور ورثہ کی ترقی کیلئے استعمال ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بی جے پی کی یہ مہم محض شہروں کے ناموں کی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی مسلم تاریخ اور شناخت کو مٹانے کی سازش ہے۔ مودی کا نعرہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” عملی طور پر ”سب کو مٹاؤ، ایک کا راج” میں بدل چکا ہے۔بھارتی مسلمان، مودی حکومت کی سرپرستی میں ریاستی سطح پر جاری نفرت، انتقام اور فرقہ وارانہ تقسیم کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • جوناگڑھ پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78 سال مکمل
  • بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز
  • آذربائیجان کی بہادر افواج نے بلند حوصلے سے کامیابی حاصل کی؛ وزیراعظم
  • آخری ایٹمی تجربہ 98ء میں کیا تھا، بھارتی موقف ہمیشہ غیر واضح: پاکستان
  • دفتر خارجہ نے پاکستان پر خفیہ اور غیر قانونی ایٹمی سرگرمیوں کے بھارتی الزامات بےبنیاد قرار دیدیئے
  • خفیہ اور غیر قانونی ایٹمی سرگرمیوں کا بھارتی الزام بے بنیاد ہے،پاکستان
  • پاکستان نے خفیہ، غیر قانونی ایٹمی سرگرمیوں کا بھارتی الزام مسترد کردیا
  • بھارت نے ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت پاکستان کو 2 رنز سے ہرا دیا
  • اعجاز ملاح اوردُنیا بھر میں پھیلے بھارتی دہشت گرد
  • بھارتی افواج کی مشترکہ جنگی مشق ’’ایکسر سائز تریشول‘‘