بھارتی فضائیہ بہت پریشان ہے، پول کھل گیا، شہزاد اقبال حقائق سامنے لے آئے
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
جیو نیوز کے سینئر اینکر پرسن شہزاد اقبال نے بھارتی فضائیہ اور پاکستان سے متعلق بھارتی میڈیا کے جھوٹ کا پول کھول کر رکھ دیا۔
جیو نیوز کی خصوصی نشریات ’وار روم ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اقبال کا کہنا ہے کہ 24 ستمبر 2016 کو بھارت میں ایک سروے کیا گیا جس میں یہ بتایا گیا کہ 73 فیصد لوگ پاکستان کے خلاف ہیں، جبکہ 55 فیصد لوگ پاکستان کے بہت زیادہ خلاف ہیں، اس کے بعد مودی کو دو مرتبہ بھارت میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے۔
پاکستان کیخلاف کارروائی نے بھارتی فضائیہ کی کمزوریوں کا پول کھول دیا، فرانسیسی اخبارفرانسیسی اخبار لی مونڈ نے جدید ہتھیاروں کے باوجود بھارتی فضائیہ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا۔
شہزاد اقبال نے کہا کہ جس وقت یہ سروے کیا گیا اس وقت پلوامہ اور پہلگام جیسے واقعے نہیں ہوئے تھے، اس کے بعد بالی ووڈ میں کئی پاکستان مخالف فلمیں بنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز بھارتی میڈیا پر خبریں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شاید بھارت کی جیت دکھانا چاہتے ہیں، کیونکہ 2019 میں وہ ابھینندن کا بدلہ لینا چاہ رہے ہیں، بھارت 2019 اور 2025 میں اپنی فضائیہ کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا چاہتا ہے۔
شہزاد اقبال نے اپنی گفتگو میں امریکی ٹی وی سی این این کی رپورٹ پڑھ کر سنائی ہے، جس میں پاک فضائیہ کی کامیابی اور بھارتی فضائیہ کی نااہلی کا ذکر کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بھارتی فضائیہ شہزاد اقبال فضائیہ کی
پڑھیں:
ویکسی نیشن حقائق اور خدشات
محکمہ سندھ نے صوبے بھر میں ہیومن پیپلو وائرس (ایچ پی وی) کے خلاف ویکسی نیشن کا اعلان کر دیا ہے جس کا مقصد جان لیوا سروائیکل کینسر سے بچاؤ ہے، لیکن دوسری جانب ایک خدشہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہر لڑکی بیماری یا وائرس کا شکار نہیں ہوتی ہے، بلکہ ہزاروں محفوظ رہتی ہیں، مزید ایک طبقہ فکر کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین بچیوں کو بانجھ بنانے کی سازش ہے تاکہ آبادی نہ بڑھ سکے۔ سندھ صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ پاکستان 148 ممالک کے بعد ویکسین فراہم کرنے والا 149 واں ملک بن گیا ہے۔
گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے ’’صحت مند بیٹی، صحت مند گھرانہ‘‘ کے عنوان سے تقریب کا انعقاد کیا، یہ تقریب خاتون گرلز کالج میں منعقد ہوئی، اس موقع پر وزیر تعلیم سردار شاہ، ای پی آئی سندھ ڈائریکٹر راج کمار اور دوسری اہم شخصیات نے شرکت کی۔ بچیوں کو کینسر جیسے موذی مرض سے بچانے کے لیے فیصلہ کیا گیا۔ صوبے بھر کی 9 سے 14 سال کی 41 لاکھ بچیوں کو یہ ویکسین مفت فراہم کی جائے گی۔ تمام تعلیمی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ محکمہ صحت سے بھرپور تعاون کریں اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کینسر کے علاوہ دوسرے امراض بھی ہیں جن میں تپ دق، ایڈز، گردوں کی بیماریاں، بلڈ کینسر، ہارٹ اٹیک اور سب سے بڑی بیماری غربت ہے جو دوسری بیماریوں اور ذہنی اذیت کو جنم دیتی ہے، خودکشی کی طرف رغبت دلاتی ہے۔ اس کے ساتھ معاشرتی زوال، تعلیمی ناخواندگی، نوجوانوں کا بے مقصد گھومنا، ڈاکے ڈالنا، قتل کرنا، بچیوں اور بچوں کا اغوا، یہ سارے جرائم والدین کی مفلسی اور تعلیم و تربیت سے چشم پوشی ہے۔ اگر حقائق پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وہی والدین ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کچھ مہنگائی کے ہاتھوں گداگر بن گئے ہیں اور ان میں سے بہت سے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ گئے ہیں وہ ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تھوڑی سی رقم کے عوض تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیا سپلائی کی ذمے داری سونپتے ہیں۔ بچوں میں منشیات کی عادت پروان چڑھانے میں حکومت کی نااہلی کے بے شمار ثبوت سامنے آئے ہیں۔ اس کی وجہ جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی وہی لوگ کرتے ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر تو ہیں لیکن اعلیٰ ذہن کے مالک نہیں۔ ایسے لوگوں کو قوم سے اور وطن سے محبت ہوتی ہے۔ یہ ملت کے پاسبانوں کو اپنی موج مستی کے لیے برباد کر دیتے ہیں۔ خود عیش و عشرت اور تفریح طبع کے لیے غیر اخلاقی فعل بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں۔
حکومت اگر تعلیم کو عام کر دیتی، اسکولوں اور لائبریریوں کے قیام کو ناگزیر قرار دیتی اور خاص طور پر غربا و مساکین کے لیے روزگار فراہم کرتی تو میاں بیوی رزق کے حصول کے لیے سڑکوں پر دھکے ہرگز نہیں کھا رہے ہوتے اور ان کے معصوم بچے گلیوں میں آوارہ ہرگز نہ گھومتے۔ ان شقی القلب ملزمان کو جب ان کا جرم ثابت ہو جائے تب اسے فوری چوراہوں پر گولی مارنے کا حکم نامہ جاری کرنا بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے مترادف ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے، جینے کی راہوں کو بند کر دیا گیا ہے۔
اگر قابل قدر ڈاکٹر ادیب رضوی SIUT جیسے اداروں کی بنیاد نہ رکھتے اور مفت علاج کی سہولت امرا و غربا کے لیے بلا تفریق مہیا نہ کرتے تو آج گردوں کے ہزاروں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر چکے ہوتے۔ آج قوم ڈاکٹر ادیب رضوی کے انسانی جذبوں اور ان کی عظمت کو سلام کرتی ہے۔ اس بات سے باشعور لوگ اچھی طرح واقف ہیں کہ ٹی بی جیسی بیماری ذہنی اذیت، دکھ اور اچھی غذا میسر نہ آنے کی وجہ سے انسانی جسم میں جگہ بنا لیتی ہے اور پھر خوب پنپتی ہے، اگر وزیر تعلیم ذہنی پراگندگی کو دور کرنے اور اپنے ملک و صوبوں کے لیے طالب علموں کو نصابی تعلیمات مفت فراہم کرتے تو جرائم کی تعداد کم اور جہالت کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔
اسی طرح وزیر تعلیم سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خستہ حالت کو ترقی کے اصولوں پر گامزن کرنے کی سعی کرتے تو ان اداروں میں منشیات جیسی لعنت اور بڑے اور پروقار عہدوں پر براجمان حضرات ہراسگی کے ذمے دار ہرگز نہ ٹھہرائے جاتے، لیکن یہاں تو ہر روز کسی نہ کسی بڑی تعلیمی درس گاہ سے متاثرہ طالبات کی شکایات منظر عام پر آ کر پاکستان کا وقار مجروح کرتی ہیں۔پورا معاشرہ زوال و انحطاط کا شکار ہے۔ یہاں کسی کو تحفظ نہیں۔ گھر اور باہر کا ماحول یکساں نظر آتا ہے، بے شمار چور، ڈاکو سڑکوں، گلیوں اور گھروں میں داخل ہو کر اہل خانہ کو ہراساں کرتے ہیں، سر راہ نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں۔ معصوم بچے، بچیاں بھی دن دہاڑے ہونے والے مظالم سے محفوظ نہیں ہیں، یہ باہر کھیلنے یا کسی کام کاج سے جائیں تو اغوا کاران کی تاک میں رہتے ہیں اور موقعہ پاتے ہی جھپٹ لیے جاتے ہیں۔
یہ کیسا شرم ناک ماحول بن چکا ہے، پہلے ذہن کا علاج ضروری ہے نہ کہ جسمانی۔ کوئی صحت مند شخص اپنے دل کا علاج قبل از وقت کرا سکتا ہے؟ کہ آنے والے وقتوں میں ناقص غذا کھانے سے اسے اٹیک ہو سکتا ہے۔ اوپن ہارٹ سرجری کے لیے بہت بڑی رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے تو وہ اس مقصد کے لیے گھر کی ذمے داریوں کو بالائے طاق رکھ کر مستقبل میں ہونے والی بیماریوں کے علاج معالجے کے لیے رقم جمع کرنا شروع کر دے؟ یا پھر قبل از وقت علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس پہنچ جائے۔
ان حالات میں اہل علم اپنی اپنی رائے پیش کر رہے ہیں۔ انھی میں سے ایک صاحب نے اپنی تحریر کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’’بات یہ ہے کہ یہ مغربی معاشرت کا مسئلہ ہے۔ اس معاشرے میں بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک جنسی تعلقات کا حصہ بہت سے نوجوان بن جاتے ہیں، اس کا نقصان اس وائرس سے انفیکشن اور پھر بعد میں اس سے ہونے والے سرطان کے امکانات کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے، اگر کوئی آزادنہ جنسی بے راہ روی سے دور ہے تو انھیں اس ویکسین کی ضرورت نہیں ہے۔ اکثر مرد باہر کے ماحول سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ وہ بے راہ روی کے راستے پر چل نکلتے ہیں، تو یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی پاک باز بیوی تک وائرس پہنچا سکتے ہیں۔
ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ویکسین لگوانے پر زور ہرگز نہ دیں۔ یہ معاملہ والدین کی مرضی پر چھوڑ دیں، ان کی رضا کے بغیر قانون کا ڈراوا دے کر ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جن کے تحت والدین اپنی بیٹیوں کو اسکول جانے سے روکیں اور گھروں میں بھی ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ کا انتظام کریں۔ یہ طالبات خوفزدہ ہو کر اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے سکیں گی اور ان کا ذہنی سکون اور مستقبل برباد ہونے کا امکان ہے اور اب بھی والدین پریشان ہیں۔ ایک دوسرے کو محتاط رہنے اور ویکسین نہ لگوانے کی تلقین کر رہے ہیں، اب یہ لاکھوں بچیاں کہاں جائیں؟ یہ ان کا ملک ہے، ان سے جینے کی آزادی نہ چھینیں۔