’پاکستان کے پاس میزائل کا ذخیرہ بہت زیادہ ہے‘، خوفزدہ بھارتی میڈیا نے رونا پیٹنا شروع کردیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
پاکستان کی جانب سے 10 مئی کی علی الصبح بھارت کے خلاف کیے جانے والے آپریشن بنیان المرصوص نے بھارت میں تباہی مچادی ہے۔پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ادھم پور، آدم پور اورپٹھان کوٹ ائیر بیسر سمیت کئی ائیر فیلڈز کو تباہ کیا اور ملٹری چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا۔پاکستان نے بھارت کی بھٹنڈا اور سرسہ ائیر فیلڈز بھی تباہ کر تے ہوئے اڑی سپلائی ڈپو کو بھی تباہ کر ڈالا ہے۔اس کیفیت نے بھارت کو خوف میں مبتلا کردیا ہے جس کااثر ان کے میڈیا حتیٰ کہ اینکرز کی گفتگو میں بھی جھلکنے لگا ہے۔سوشل میڈیا پر بھارتی چینلز کی ایک ایسی ہی ویڈیو وائرل ہے جس میں بھارتی نیوز چینلز پر پاکستان کی جوابی کارروائی کو دکھایا جارہا ہے، اس ویڈیو کو دیکھتے ہوئے بھارتی اینکر میزبان سے سوال کررہا ہے کہ ہمیں بتایا جارہا تھا کہ پاکستان اس میزائل کو آخر میں استعمال کرے گا لیکن اب دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان تو شروع میں ہی اس میزائل کو استعمال کررہا ہے۔اس پر کال پر لیے گئے مہمان کا کہنا تھا کہ ’میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پاکستان کے میزائل کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے اور وہ میزائل اس سے بھی زیادہ کارگر ہیں‘۔مہمان کی گفتگو پر میزبان کا کہنا تھا کہ اس میزائل کا مقصد بھارت کی ائیر ڈیفنس سسٹم کا سراغ لگانا بھی ہوسکتا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
امریکی میڈیا نیتن یاہو سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے
جب سے غزہ کا بحران شروع ہوا ۔مغربی میڈیا کی جانبداری پر درجنوں سوالات اٹھ چکے ہیں۔اگر اس وقت کھلی صحافتی جانبداری کا ورلڈ کپ منعقد ہو تو ٹیم امریکا کو یورپ بھی شاید نہ ہرا سکے ۔
مثلاً اخبار نیویارک ٹائمز کی مئی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں غزہ کے لاکھوں قحط متاثرین میں سے ایک محمد زکریا المتواق ( عمر ڈیڑھ برس ) کا بھی ذکر ہوا۔ زکریا کی ماں نے بتایا کہ اس کا بچہ صحت مند پیدا ہوا تھا۔مگر مسلسل ناکافی غدائیت کے سبب ابتر حالت میں ہے۔
یہ رپورٹ شایع ہونے کے لگ بھگ ایک ماہ بعد اخبار نیویارک ٹائمز نے قارئین سے معذرت کرتے ہوئی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ہمیں مزید چھان بین سے معلوم ہوا کہ محمد زکریا پیدائش کے وقت ہی سے سیریبرل پالسی ( اعصابی بیماری ) میں مبتلا تھا۔لہٰذا اس کی خراب حالت محض ناکافی غذائیت کا نتیجہ نہیں ہے۔
اس ’’ تصیح ‘‘ پر ایک مبصر نے طنز کیا کہ اچھا ہوا اخبار نے صفائی پیش کر دی کہ ڈیڑھ سالہ محمد زکریا کی لاغری کا سبب خوراک کا ملنا نہیں بلکہ پیدائشی نقص ہے۔اس وضاحت کے بعد اب جرمن نازیوں کے اس موقف کو بھی سچ ماننا ہو گا کہ ہالوکاسٹ کا ایک شہرہ آفاق کردار بارہ سالہ این فرینک کسی کنسنٹریشن کیمپ میں نازی پہرے داروں کے ظلم کے نتیجے میں نہیں بلکہ ٹائفس کے سبب مری تھی۔
اسرائیل کا مہینوں سے موقف ہے کہ ہم نے فلسطینیوں کو اٹھہتر برس سے امداد بانٹنے والی اقوامِ متحدہ کی تنظیم انرا پر اس لیے پابندی لگائی کہ اسے دھشت گردوں نے ہائی جیک کر لیا تھا۔اور یہ کہ غزہ میں گزشتہ بائیس ماہ کے دوران جتنی بھی بین الاقوامی امداد پہنچی اس کا بیشتر حصہ حماس نے لوٹ لیا چنانچہ امداد کی تقسیم کا کام بادلِ ناخواستہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے سپرد کرنا پڑا۔
اس پورے عرصے میں اخبار نیویارک ٹائمز حماس کے ہاتھوں امداد کی چوری کا الزام تندہی سے شایع کرتا رہا۔ گزشتہ ہفتے اس نے پہلی بار ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کیا کہ چار اسرائیلی ذرایع نے تصدیق کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کا امدادی تقسیم کا نظام خاصا موثر تھا اور یہ کہ حماس اقوامِ متحدہ کی امداد کی چوری میں ملوث نہیں ۔ البتہ حماس چند چھوٹی امدادی تنظیموں کو ملنے والی رسد ضرور ضبط کرتی رہی ہے۔
مگر اس وضاحت سے پہلے جنوری سے جولائی کے آخری ہفتے تک غزہ میں امداد کی چوری کا اسرائیلی الزام نیویارک ٹائمز کی اکسٹھ رپورٹوں اور مضامین میں دھرایا گیا۔ان میں سے نو رپورٹوں میں صرف اسرائیلی موقف پر ہی تکیہ کیا گیا۔بارہ مضامین میں یہ تشویش ظاہر کی گئی کہ حماس امداد کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔مگر گزشتہ ہفتے شایع ہونے والی وضاحت میں یہ پھر بھی نہیں قبولا گیا کہ اخبار اب تک مسلسل غلط بیانی کرتا رہا۔الٹا اخبار آج بھی بضد ہے کہ وہ اسرائیل کے سرکاری دعوے اور فلسطینیوں کا موقف باریک بینی سے چھان پھٹک کے بعد ہی چھاپتا ہے۔
اگر یہ وضاحت درست ہے تو پھر تو اور تعجب خیز ہے کہ اخبار کو مہینوں سے دھرائے جانے والا انرا کا یہ موقف کیوں دکھائی نہیں دیا کہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ حماس یا اسرائیل سے برسرِ پیکار دیگر مسلح گروہ ہماری امداد کی چوری میں ملوث ہیں۔ بلکہ اس طرح کا دعوی امداد کی تقسیم اپنے ہاتھ میں لینے کے جواز کے طور پر کیا جا رہا ہے۔حالانکہ امداد کی موجودہ تقسیم بین الاقوامی انسانی قوانین کو خاطر میں لائے بغیر ہو رہی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں جو بھی امداد عالمی فلاحی اداروں کی جانب سے پہنچی۔اس کا محض ایک فیصد غائب ہوا یا لوٹا گیااور اس کام میں بھی اسرائیلی حمائیت یافتہ ابو شباب گروپ آگے آگے ہے۔یورپی یونین کمیشن بھی اسی نتیجے پر پہنچا۔مگر نیویارک ٹائمز میں ان تردیدوں کے باوجود امریکی اہلکاروں کے حوالے سے تین ایسی خبریں پھر بھی شایع ہوئیں کہ حماس امداد چوری کر رہی ہے۔
گزشتہ برس اپریل میں ایک موقر آن لائن امریکی جریدے ’’دی انٹرسیپٹ ‘‘ نے نیویارک ٹائمز کے عملے کے لیے جاری ہونے والے ایک انٹرنل میمو کا حوالہ دیا۔اس میمو میں اسٹاف کو ہدائیت کی گئی کہ وہ نسل کشی، نسلی صفائی، مقبوضہ علاقے جیسی اصطلاحات استعمال نہ کرے اور فلسطین اور غزہ کے پناہ گزین کیمپ کی اصطلاح بھی کم از کم برتے۔
غزہ کے بحران کے ابتدائی چھ ہفتے کے دوران اخبار نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز کی کوریج کے جائزے سے پتہ چلا کہ ان اخبارات نے اسرائیلی اموات اور امریکا میں یہودیوں سے تعصب کی خبروں کو نمایاں شایع کیا۔جب کہ فلسطینی اموات کی خبریں سرسری انداز میں محض خانہ پری کے لیے شایع ہوئیں۔
ان اخبارات نے اسرائیلی حکام کے ایسے بیانات کی تشہیر کو بھی دبایا جن سے نسل پرستی اور نسل کشی کی بو آتی ہے۔ان میں اسرائیلی وزیرِ سلامتی بن گویر کا یہ بیان بھی شامل تھا کہ غزہ میں گندم کے ایک دانے کے بجائے سیکڑوں ٹن بموں کی رسد جاری رہنی چاہیے۔اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلل سموترخ نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بیس لاکھ لوگوں کو بھوکا مارنا ایک سودمند پالیسی ہے بھلے دنیا اس پالیسی کی کتنی بھی مخالف ہو۔
دو ہفتے پہلے ہی وزیرِ ثقافت امشائی ایلیاہو نے کہا کہ فلسطینی اندر سے نازی ہیں۔غزہ میں کوئی بھوکا نہیں۔اگر ہو بھی تو یہ ہمارا نہیں باقی دنیا کا دردِ سر ہے۔امریکی میڈیا نے ان بیانات کو چیختی چنگھاڑتی سرخیاں بنانا پسند نہیں کیا کیونکہ یہ کسی فلسطینی یا عرب کے بیانات نہیں تھے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی آدھی تعداد غذا کی عدم دستیابی کے سبب زندگی و موت کے درمیان معلق ہے۔ بھوک سے مرنے والوں میں بچوں کا تناسب اسی فیصد ہے۔پانچ لاکھ افراد قحط کی لپیٹ میں ہیں اور باقی آبادی ناکافی غذائیت بھگت رہی ہے۔یعنی انسانی جسم کو روزانہ جتنی لازمی کیلوریز درکار ہیں وہ غزہ کے کسی بھی باشندے کو میسر نہیں۔
خوراک سے بھرے ہزاروں ٹرک غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں اور ان میں بھرا سامان مسلسل ضایع ہو رہا ہے۔جب کہ اب تک خوراک کے متلاشی ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی قاتل غزہ ہومینٹیرین فاؤنڈیشن کی ’’ شاندار ‘‘ کارکردگی کو امریکا ہر تھوڑے عرصے بعد سراہتے ہوئے سو سو ملین ڈالر کے چیک دے رہا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)