Islam Times:
2025-11-05@02:30:37 GMT

صدرٹرمپ اور مسئلہ کشمیر!اجی بہت خوب

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

صدرٹرمپ اور مسئلہ کشمیر!اجی بہت خوب

اسلام ٹائمز: ایسے شخص سے یہ امید باندھنا کہ وہ اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن پاکستان اور مسلمانوں کی مدد کرے گا اور بقول ان کے کشمیر کا ’’ہزار سال سے جاری بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ عرصے سے پرانا‘‘ مسئلہ حل کردے گا صحرا کے بگولوں کا تاج سر پر رکھنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل عربوں کو اب اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔ وہ ایٹمی پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ ٹرمپ اسرائیل کے سب سے بڑے دوست ہیں۔ ایسے دوست اسرائیل کی تاریخ میں ان جیسا دوست آج تک اسرائیل کو نہیں ملا۔ وہ سر قلم کروا کر بھی ایسے دوست کے دشمن کی مشکل آسان نہیں کرسکتے۔ تحریر: بابا الف

ایک مولوی سے کہا گیا ’’ذرا فحاشی کی تعریف تو کردیں‘‘ بولے ’’کس مائی کے لال میں اتنی ہمت ہے کہ ہمارے آگے فحاشی کی تعریف کرسکے‘‘۔ کچھ ایسی ہی صورت صدر ٹرمپ کے باب میں ہمارے یہاں تھی۔ کس میں اتنی جرأت کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے باوجود اسرائیل کی بے حدوحساب سپورٹ اور غزہ پر قبضے کے ارادے کے بعد پاکستان میں صدر ٹرمپ کی تعریف کرسکے؟ لیکن جب سے انہوں نے چار روزہ جنگ میں بھارت اور پاکستان کے ساتھ برابری کا سلوک کیا ہے اور مسئلہ کشمیر حل کروانے کا عندیہ دیا یہاں وہ حال ہوگیا:
نکل گیا جو زباں سے تیرے حرف
پھر نہ وہ اپنے کان سے نکلا

کہا جاتا ہے کہ طوائف کسی عورت کا نام نہیں، ایک کیفیت ہے جو مرد پر بھی آسکتی ہے لیکن صدر ٹرمپ پر ایسی کیفیت کا طاری ہونا جس میں مسلمانوں کی خیر ہو! ناممکن۔ تاہم اس کے باوجود صدر ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر حل کروانے کے اظہار پر کچھ ارباب حل وعقد اس طرح خوش ہیں کہ پتا نہیں چل رہا کہ ان کا قہقہہ، قینچی والے کاف سے لکھنا ہے یا کوّے والے کاف سے جو ہنس کی چال چل پڑا ہے۔ ویسے کلموہے اور کلجگ والے کاف سے بھی لکھا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اور کل جگ کے کمبی نیشن پر وارث شاہ کا ایک شعر سنیے:
کل جگ سچا کوئی نہ لبھدا
جھوٹے جگ دے ویہڑے وچ وسنا اے
ساری دنیا میں کوئی سچا نہیں ملتا، ہمیں جھوٹ کے نگر میں ہی رہنا ہے۔
بات پنجابی صو فی شعراء کی چل نکلی ہے تو پھر شوق کو قرار کہاں۔ ایک شعر بابا بلھے شاہ کا بھی ملاحظہ ہو:
کل جگ پھاہی ویکھدا
سانوں عشق پھانسیا
ساری دنیا نے پھانسی کا تماشا دیکھا، ہم عشق میں پھنس گئے۔

صوفیانہ شاعری دنیا کی ناپائیداری، ریاکاری اور عشق حقیقی کی راہ میں تنہائی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلام بھی مسلمانوں کا ایسا ہی عشق ہے، دنیا میں جس کے نفاذ میں وہ تنہا ہیں۔ کوئی اور بے لوث ہوکر مسلمانوں کا مسئلہ حل کرسکے، ان کے بکھرے اجزا کو یکجا کرسکے اور خصوصاً صدر ٹرمپ جیسا کردار، ایسا ممکن نہیں ہے۔ سچ بولنا اور شرافت ونجابت کا مظاہرہ کرنا صدر ٹرمپ کے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے اس لیے وہ روز ایک نئی حقیقت ایجاد کر لیتے ہیں۔ سچ ان کے نزدیک فلم کے سیٹ پر جنت کا سین ہے۔ وہ باتوں کے استرے سے مونڈنے کے ماہر ہیں۔ اگر موج میں آئیں تو شبنم کے قطروں کو بھی آلہ خودکشی ثابت کردیں۔ ان کی یاداشت ہر جھوٹے کی طرح انتہائی کمزور اور اعتماد چٹان سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ ٹرمپ کی سچائی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کا منہ کس کی طرف ہے اور وہ کس چینل پر آرہے ہیں۔ ٹرمپ ایک ایسا جادوگر ہے جو کچھ بھی دکھا سکتا ہے اور کچھ بھی غائب کرسکتا ہے۔

کسی بھی دن اپنی پرانی بات کو غائب کردینا، اس کی تردید کردینا اور پھر اگلے دن اسے حقیقت تسلیم کر لینا ان کے لیے ایسا ہی ہے جیسے غسل خانے میں پانی بہانا۔ وہ مدد بھی اس طرح ما نگتے ہیں ’’کیا آپ کے پاس اس غریب کی مدد کے لیے کچھ ہے جس کی جیب میں بھرے ہوئے پستول کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔ دیکھ لیجیے اپنے کل کے چہیتے وزیراعظم نریندر مودی کی سیز فائر کے معاملے میں انہوں نے کس طرح مدد کی اور اب کس طرح بھگو بھگو کر ان کی تشریف لال کررہے ہیں۔ ایسے شخص سے یہ امید باندھنا کہ وہ اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن پاکستان اور مسلمانوں کی مدد کرے گا اور بقول ان کے کشمیر کا ’’ہزار سال سے جاری بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ عرصے سے پرانا‘‘ مسئلہ حل کردے گا صحرا کے بگولوں کا تاج سر پر رکھنے کے مترادف ہے۔

اسرائیل عربوں کو اب اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔ وہ ایٹمی پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ ٹرمپ اسرائیل کے سب سے بڑے دوست ہیں۔ ایسے دوست اسرائیل کی تاریخ میں ان جیسا دوست آج تک اسرائیل کو نہیں ملا۔ وہ سر قلم کروا کر بھی ایسے دوست کے دشمن کی مشکل آسان نہیں کرسکتے۔ ممکن ہے پاک بھارت حالیہ جنگ میں بریفنگ کے دوران مسئلہ کشمیر کسی عنوان ذکر ہو گیا ہو تو صدر ٹرمپ نے اس چکنے اور پھسلنے تختے کو دنیا میں جنگوں کے خاتمے کے اپنے دعووں کی تشریف فرمائی کے لیے چن لیا ہو۔ کب وہ اس چکنے تخت سے پھسل کر اسے فراموش کردیں کیا مشکل ہے۔

اگست 2019 میں جب مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرکے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے اسے بھارت میں ضم کرلیا جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، شملہ معاہدے اور پاک بھارت دو طرفہ تعلقات کے خلاف تھا، اس فیصلے نے پاکستان میں شدید غم وغصے کو جنم دیا تھا تب وزیراعظم عمران خان پر ریاستی ردعمل کا اظہار کرنے کے لیے بے تحاشا دبائو ڈالا گیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اس ردعمل کو ٹھس کردیا ’’کیا میں انڈیا سے جنگ کرلوں؟ انڈیا پر حملہ کردو ں؟ انڈیا سے جنگ چھیڑدوں‘‘۔

ان میں سے کسی بات کا یارا تو ان کو نہیں تھا لیکن اگر ہمت اگر کچھ تھی تو ’’12 سے 12:30 تک کشمیر آور‘‘ منانے اور اقوام متحدہ میں بھارتی فسطائیت، آر ایس ایس کے نظریہ اور ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرے کو اس طرح اجاگر کرنے کی جیسے پہلی مرتبہ یہ باتیں دنیا کے علم میں لائی جارہی ہوں۔ جنرل باجوہ بھی بس یہ کہہ کررہ گئے ’’پاکستان امن چاہتا ہے لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو بھر پور جواب دیا جائے گا‘‘۔ اسی زمانے میں غیر مصدقہ ذرائع میں جنرل باجوہ سے منسوب یہ بیان بھی گردش کررہا تھا کہ ’’اگر جنگ چھڑ گئی تو ہمارے ٹینکوں میں پٹرول بھی نہیں ہوگا‘‘۔

وزیراعظم مودی کے لیے یہ بیٹھے ہوئے اونٹ پر چڑھنے جیسی دل لبھانے والی صورتحال تھی جس کے بعد انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم نے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کردیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھی کشمیر کے باب میں ایسی ہی خاموشی اختیار کی گئی جیسے یہ مسئلہ وجود ہی نہ رکھتا ہو اور اس پر خاک ڈال دی گئی ہو۔ 22 اپریل کو بھارت کے خودکردہ پہل گام سانحہ کے بعد جب عالمی میڈیا نے اسے تنازع کشمیر کے حوالے سے دیکھنا شروع کیا اور صدر ٹرمپ سمیت عالمی رہنمائوں نے کشمیر کو متنازع مسئلہ قرار دیا تب وہ پاکستانی حکمران جو مسئلہ کشمیر کی تجہیز وتکفین کر چکے تھے، جھر جھری لے کر بیدار ہوگئے اور ان مہاتمائوں کو کشمیر کے درختوں کی چھائوں میں نروان حاصل ہونے لگا۔

چار روزہ جنگ میں جب بھارت کو اس کی تاریخ کی سب سے ذلت آمیز شکست دی گئی اور پوری دنیا کا میڈیا، حکومتیں اور عالمی رہنما مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دے رہے تھے، کشمیر کے معاملے میں ایک فیصلہ کن پیش رفت کا پاکستان کے پاس بہترین موقع تھا، بھارت پوری طرح گرفت میں آگیا تھا، پاکستانی افواج کے لیے ناممکن نہیں تھا کہ وہ کشمیر کے محاذ کو گرم کرسکیں، بعد میں جو کچھ ہوتا دیکھا جاتا۔ پاکستان صدر ٹرمپ کے کہنے میں آ گیا کہ امریکا اس معاملے میں ثالثی کرواکر اس مسئلے کو حل کروادے گا۔ کیا ہمیں علم نہیں امریکا کی ثالثی کس کے حق میں جائے گی۔ 1948 سے لے کر 1965 اور کارگل کی جنگ تک یہ امریکا ہی تھا جو پاکستان سے ثالثی کے وعدے کرکے اس مسئلے کو سات دہا ئیوں سے بھی پرانا مسئلہ بنا چکا ہے۔ 10 مئی کو لگتا ہے ہم نے ایک بار پھر کشمیر کو گنوادیا ہے۔

بشکریہ: جسارت ڈاٹ کام

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل کے سب سے بڑے مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ کے ایسے دوست انہوں نے کشمیر کے مسئلہ حل کے لیے ہے اور سے بھی

پڑھیں:

پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر

بنگلا دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان—فائل فوٹو

پاکستان میں بنگلا دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پچھلے 10، 15 سال سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر نہیں تھے، گزشتہ سال صورتِحال تبدیل ہوئی۔ 

کراچی میں خطاب کرتے ہوئے بنگلا دیشی ہائی کمشنر نے کہا کہ بنگلا دیش کے لوگ پاکستان کا ویزا 24 گھنٹوں میں لے لیتے ہیں، بنگلا دیش سے پاکستان براہِ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کی وجہ سے ڈائریکٹ فلائٹ میں مسائل پیش آ رہے ہیں، میں اسے بہتر کرنے کے لیے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہوں۔

بنگلا دیشی ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ کراچی پورٹ اور چٹگانگ پورٹ کنیکٹیوٹی، سیاحت اور صحت پر پر بھی کام کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یونیورسٹی لیول پر فٹ بال ٹیمیں مل کر کام کر رہی ہیں، ہم دونوں ممالک کے درمیاں بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: ٹریکس نظام سے قبل اونرشپ کا مسئلہ  حل نہیں کیا گیا، چالان گاڑیوں کے سابق مالکان کو ملے گا
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ کا دعویٰ
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • نتن یاہو کے ساتھ اسرائیل میں اچھا برتاؤ نہیں ہو رہا وہاں مداخلت کرونگا، ٹرمپ
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر