Express News:
2025-05-27@18:07:42 GMT

عبدالواحد صاحب،’اسے ڈھونڈتے میرؔ کھوئے گئے‘

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

گجرات کچہری چوک سے بھمبر روڈ پر سفر شروع کریں توکچھ آگے زمیندارکالج ہے۔ گھنے درختوں میں گھرا اور پھولدار پودوں سے لدا ہوا، اینگلو انڈین طرز تعمیرکا شاہکار یہ کالج پہلی نظر ہی میں نووارد طلبہ کو اپنا دیوانہ بنا دیتا تھا، وہیں دور ونزدیک کے نوجوان اساتذہ کے دل بھی بطور لیکچرراسے جوائن کرنے کے لیے تڑپتے تھے۔

راولپنڈی کے عبدالواحد صاحب نے بھی جب پہلی بار یہ کالج دیکھا، تو بس دیکھتے ہی رہ گئے، ان کے بڑے بھائی اسی کالج میں انگریزی کے لیکچررتھے۔ چنانچہ جیسے ہی کالج میں اردو لیکچرر کی اسامی نکلی۔ واحد صاحب زمیندارکالج اکیڈیمک اسٹاف کا حصہ بن گئے۔ بقول ان کے، یہ خواب ان کا پورا ہوا، تو جیسے ان کی زندگی کے سارے خواب پورے ہو گئے۔ مجھے فرسٹ ایئر اردوکا وہ پہلا پیریڈ آج بھی یاد ہے۔

کلاس روم طلبہ سے بھر چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں واحد صاحب حاضری رجسٹر تھامے کلاس روم میں داخل ہوئے، متناسب قامت، گھنے بال، جو تیزی سے سفید ہو رہے تھے، کالے فریم والی نظر کا چشمہ، بھورے رنگ کی نفیس شلوار قمیص پر میچنگ واسکٹ، واحد صاحب کی شخصیت بڑی دلکش معلوم ہو رہی تھی۔

پہلے پیریڈ ہی میںطلباء ان کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ واحد صاحب کی ذاتی توجہ اور شفقت البتہ مجھے اس وقت حاصل ہوئی، جب کالج کے سالانہ ٹیسٹ کے نتائج آئے ۔ میں اردو میں بہت اچھے نمبروں کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ جب واحد صاحب نے کلاس روم میں آتے ہی سب سے پہلے میرا رول نمبر پکارا تو میں ڈر گیا کہ خدا خیر کرے۔ لیکن پھر حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی ، جب انھوں نے پوری کلاس کو میرا امتحانی پرچہ دکھاتے ہوئے کہا کہ میں تو صرف اس کا پرچہ دیکھ کے خوش ہوا ہوں۔ بس اس روزکے بعد میں گویا ان کے چہیتے شاگردوں میں شامل ہو گیا۔

واحد صاحب ان دنوں سیالوی روڈ گجرات پر پرانی طرزکی ایک پیلی کوٹھی میں کرایہ پر رہتے تھے۔ عشق لاحاصل کے بعد تنہائی ہی کو اپنا ’جیون ساتھی‘ بنا چکے تھے۔ شام کو البتہ کھانا پکانے کے لیے کوئی باورچی آ جاتا تھا۔ یہیں سے روزانہ سائیکل پرکالج پہنچتے تھے۔ یہ پیلی کوٹھی ہمارے گھر کے قریب ہی تھی، اس لیے اب کالج اوقات کے بعد بھی ان سے ملاقات رہنے لگی تھی۔ اس کے صحن میں کبھی کبھار ہم کچھ طلبہ کی چائے سے تواضع بھی کرتے۔ ان کی گفتگو میںکیرئیر، روپیہ پیسہ یا گھر بنانے کی تگ ودو کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ شعروادب ہی اول و آخر ان کے موضوعات تھے۔

شام کے بعد وہ گھر سے کم ہی نکلتے۔ اس سمے جب کبھی ان کے گھر جانا ہوا، ہمیشہ ان کو اپنے کمرے میں بستر پر ٹیک لگائے لیمپ کی روشنی میں مطالعہ کرتے پایا۔ ان کی طبع نازک کو میر تقی میرؔ، میر دردؔ اور ناصرؔ کاظمی سے خاص مناسبت تھی، بلکہ میرؔ کو غالبؔ پر فوقیت دیتے تھے۔ میرؔ کو پڑھنے اور سمجھتے کا سلیقہ میں نے واحد صاحب ہی سے سیکھا، ورنہ ’سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا کہ ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے‘۔

واحد صاحب کے مشفق سایہ میں کالج کے سہانے دن کسی مہکتے تیز جھونکے کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوگئے۔ میں پڑھنے کے لیے لاہور آگیا، تب بھی ابتدائی طور پر ان سے برابر رابطہ رہا، لیکن پھر یہاں نوکری اور گھرداری کے جھنجھٹوں نے ان کے گھر کا راستہ بھی بھلا دیا۔ کئی برس اسی خود فراموشی میں بیت گئے۔ ایک مدت بعد زندگی میں کچھ ٹھیراو آیا اور مڑ کے دیکھا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ جی چاہا کہ وہ پیلی کوٹھی ہی دیکھ آوں۔ پر، وہاں گیا تو وہ کالی کوٹھی اب دیکھنے کو بھی میسر نہ تھی، سب مٹ چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد واپس راولپنڈی چلے گئے تھے اور ان دنوں واہ کینٹ میں کسی بہن کے گھر انیکسی میں زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں۔

ایک دوست کی مہربانی سے ان کا سیل نمبر مل گیا۔ یہ وبا کے دن تھے۔ ایک روز ان کا نمبر ملایا۔ آہستگی کسی نے پوچھا، ’جی، فرمائیے؟‘۔ ’سر، میں آپ کا شاگرد اصغر عبداللہ ہوں۔‘ کچھ توقف کے بعد، جیسے کچھ یادکر رہے ہوں، ان کی وہی کالج کے زمانے کی جانی پہنچانی آواز سنائی دی،اگرچہ آج اس میں بڑھاپے کی افسردگی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔’آہا، اصغر میاں، خیریت سے ہو؟ میں تو سمجھا تھا، گجرات کے اکثر باسیوں کی طرح تم بھی کہیں دور دیس چلے گئے ہو۔‘ ان کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں، اور ایکا ایکی بیتے دنوں کی اتھاہ گہرائیوں سے وہ پرانی پیلی کوٹھی پھر نظروں کے سامنے آ گئی ۔

باہر بارش سے پہلے کی تیز ہوا چل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ لمبی بات کرنے میں ان کو دقت ہو رہی ہے۔ ’سر میں واہ کینٹ میں آپ کو ملنے آوں گا۔‘ میں نے کہا۔ ’میرے پاس تو وقت ہی وقت ہے اصغر، انھوں نے کہا، ’لیکن، اس وبا اور خراب موسم میں مجھ بوڑھے کے لیے خودکو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہو۔ موسم ذرا کھل جائے دو، اوردیکھو۔ لیکن، یہ موسم پھر کبھی نہیں کھلا، ان کی وہ شفیق آواز پھر کبھی سنائی نہیں دی۔ بقول میرؔ،گلی میں اس کے گیا، سو گیا نہ بولا پھر، میں میرؔ میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا۔کچھ مدت بعد اسی نمبر پر دوبارہ کال کی تو معلوم ہوا کہ ہمارے عبدالواحد صاحب اور ان کی تنہائی کب کے تہ خاک بسرام کر چکے۔ حافظ ؎

نسیم زِلف تو چون بگزرد بتربت حافظؔ

ز خاک کالبدش صد ہزار نالہ برآید

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: واحد صاحب کے لیے کے بعد ہی تھی

پڑھیں:

پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL)

پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL) WhatsAppFacebookTwitter 0 26 May, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

                اپریل 2022 میں، تحریکِ عدم اعتماد، کے ذریعے محرومِ اقتدار ہونے کے بعد تحریکِ انصاف کے سامنے ایک راستہ تو وہی تھا جو جمہوری فکر کی حامل، سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والی بالغ فکر جماعتیں اختیار کیا کرتی ہیں۔ وہ سیدھے سبھائو  اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتی۔ صرف دو  ووٹوں کی برتری سے قائم،  معجونِ مرکب جیسی مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کئے رکھتی  اور سائفر جیسے ناٹک رچانے اور  فوج کو نشانے پر رکھ لینے کے بجائے تحمل اور  استقامت کے ساتھ انتخابات کی طرف پیش قدمی کرتی۔

                گذشتہ تین برس میں، اس کے سفر کو ایسا سفرِ رائیگاں قرار دیا جاسکتا ہے  اور  وہ قومی سیاست کی ایسی داستانِ عبرت بن چکی ہے جس کے ہر صفحے پر اُس کے بانی کی بے حکمتی، انا پرستی، ہٹ دھرمی ، خُود شکنی اور سیاسی فہم وفرست سے محرومی کے نوشتے رقم ہیں۔

                تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی، عمران خان نے پہلے ہدف کا تعین کرتے ہوئے، تحریکِ عدم اعتماد کو ”رجیم چینج” (حکومتی تبدیلی) کی عالمی سازش قرار دیا۔ سائفر لہراتے ہوئے اُسے امریکی اور مقامی ”میرجعفروں، میر صادقوں” کی ملی بھگت کا نام دیا۔ مظلومی سے جڑے جرات وبہادری کے خود تراش نظریے کو ”ہم کوئی غلام ہیں؟” ”غلامی نامنظور” اور ”آزادی” جیسے انقلابی نعرے دیے۔ اسی دوران جنرل باجوہ سے ملاقاتوں میں التماس کی کہ پی۔ڈی۔ایم کو فارغ کرکے اُنہیں پھر سے وزارت عظمی کی  مسند پر بٹھا دیا جائے۔ اس کے عوض جنرل باجوہ کو  تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کی۔

                عمران خان کا دوسرا  اہم ہدف یہ تھا کہ پاکستان معاشی طورپر سنبھلنے نہ پائے اور  دیوالیہ قرار پاکر زمیں بوس ہوجائے۔ اس ہدف کے لئے اُنہوں نے دلجمعی سے بھرپور مہم چلائی۔ اگست 2022 میں خان صاحب کے وزیرخزانہ شوکت ترین کی آڈیو سامنے آئی جس میں وہ خیبرپختون خوا  اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو تلقین کرتے پائے گئے کہ آئی۔ایم۔ایف کو عدم تعاون کے خطوط لکھے جائیں تاکہ پاکستان کو کوئی نیا پروگرام نہ مل پائے۔ 23 مئی 2024 کو عمران خان نے اڈیالہ  جیل سے آئی۔ایم۔ایف  کو ایک طویل خط میں تنبیہہ کی کہ وہ ”انتخابات کا آڈٹ” کئے بغیر پاکستان کو قرض دینے سے باز رہے۔ اس خط کے تین ہفتوں بعد، 15 مارچ کو پی۔ٹی۔آئی نے واشنگٹن میں آئی۔ایم۔ایف کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے ایک شعلہ صفت مظاہرہ کیا۔ فروری 2025 میں عمران خان کے حکم پر پی۔ٹی۔آئی کے مرکزی راہنما عمرایوب نے آئی۔ایم۔ایف کے کنٹری ہیڈ برائے پاکستان سے ملاقات میں ایک فتنہ پرور خط حوالے کیا جس کے ساتھ پاکستان کی ”غزہ” جیسی صورت حال بارے ایک بھاری بھرکم ”ڈوزئیر” بھی منسلک تھا۔ عرضداشت یہ تھی کہ پاکستان کو دیوالیہ پن کے بحرِ ظلمات میں غرق ہونے دیا جائے۔ پاکستان کی معاشی ناکہ بندی کے لئے عمران خان نے جنوری 2024 میں سمندر پار پاکستانیوں سے پُرزور اپیل کی کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔ یہ اپیل عین اُس دن جاری کی گئی جس دن پی۔ٹی۔آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کی بساط بچھ رہی تھی۔

                عمران خان کا تیسرا  اہم ہدف (جس کی منصوبہ بندی وہ اپنے عہد حکومت ہی میں کرچکے تھے) یہ تھا کہ جنرل عاصم منیر کو کسی طور آرمی چیف نہ بننے دیا جائے۔ آئی۔ایس۔آئی کا سربراہ ہوتے ہوئے، جنرل عاصم سے ”دوگستاخیاں” سرزد  ہوچکی تھیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے ٹھوس شواہد اور  دستاویزات کے ساتھ وزیراعظم عمران کو بتایا تھا کہ اُن کا گھر کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ دوسری یہ کہ نیک نفس جرنیل نے دوٹوک انداز میں انکار کردیا کہ وہ خان صاحب کے سیاسی مخالفین کے خلاف جعلی مقدمات بنائیں اور انہیں جیل میں ڈالیں۔ عاصم منیر سے خفگی اتنی بڑھی کہ انہیں صرف سات ماہ  اکیس دن بعد ڈی۔جی۔آئی ایس آئی کے منصب سے ہٹا کر کنیزِ حرم جیسا کردار  ادا کرنے والے فیض حمید کو کمان سونپ دی گئی۔ عاصم منیر کا راستہ روکنے کے لئے خان صاحب نے آخری فیصلہ کن یلغار، تقرری کے اعلان سے دو  دن قبل کی جب وہ زخمی ٹانگ لئے، تھکا دینے والا سفر طے کرکے راولپنڈی پہنچے۔ عوام کا مجمع ایک دو ہزار سے آگے نہ بڑھا تو مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ جنرل باجوہ نے آخری لمحے تک عاصم منیر کی بھرپور مخالفت کی لیکن ایک فیصلہ لوحِ قضا وقدر پر کندہ ہوچکا تھا۔ عمران فیض حمید گٹھ جوڑ نے ہمت نہ ہاری۔ 9 مئی 2023 کو تین سو کے لگ بھگ فوجی تنصیبات، فضائیہ کے اڈوں اور شہدا کے مزاروں کی تاخت وتاراج بھی فوج کے اندر ارتعاش پیدا کرکے عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش تھی۔

                سید عاصم منیر سے مخاصمت کے ساتھ ساتھ، خان صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی نیزے کی اَنی پہ رکھا ہوا تھا۔ اُن کے چہرے پر رُسوائیاں تھوپ کر گھر بھیجنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے گئے لیکن قاضی صاحب، وقت آنے پر چیف جسٹس بنے اور پوری تمکنت کے ساتھ اپنی معیاد پوری کی۔ عمران خان نے اپنے ڈھب کی عدلیہ تخلیق کرنے کے لئے بھی بڑے جتن کئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے چھ جج صاحبان کا مکتوب گرامی طلوع ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے بھی رنگا رنگ خطوط آنے لگے۔ پھر خود عدالتیں بھی مشقِ سخن میں شامل ہوگئیں خان صاحب کی شاخِ آرزو  پر  کونپلیں پھوٹ ہی رہی تھیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم آگئی اور ”انقلاب”جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

                اب برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ سارے اہداف اور سارے منصوبے گورستانِ تاریخ کا رزق ہوچکے ہیں۔ سائفر کے ناٹک اور بیسیوں جلسوں کے باوجود کسی انقلاب نے انگڑائی نہیں لی۔ عوام اب اس کارِلاحاصل سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔ ”فائنل کال” کی بڑی ہزیمت نے پی۔ٹی۔آئی کے دست وبازو کی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ آئی۔ایم۔ایف کا پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ معیشت اپنے پائوں پر کھڑی  ہوچکی ہے اور  اللہ کے فضل وکرم سے دیوالیہ پن کا خطرہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ خان صاحب کی اپیل کے باوجود سمندر پار سے ترسیلات زر نئے  ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ سید عاصم منیر، بھارت کے خلاف جنگ میں فتحِ مبین کے بعد فیلڈ مارشل کے بلند ترین منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ خان صاحب کی سپاہِ سوشل میڈیا کا نشانہ بننے والی پاک فوج، اہل وطن کے دلوں کے بہت قریب آگئی ہے۔ ”صداقت وامانت” کی سنداتِ فضیلت بانٹنے اور ”گُڈ ٹو سی یو” کہہ کر استقبال کرنے والی عدلیہ قصّہ ماضی ہوچکی۔ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں کی توثیق کرچکی۔ سپریم کورٹ ہی کی ہدایت کے مطابق 14 اگست تک انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں 9 مئی کے ملزموں کے مقدر کا فیصلہ کرنے جا رہی ہیں۔ فیض حمید کا کورٹ مارشل، فیصل ہونے کو ہے۔ خود فریبی کی کارگاہ میں تراشا گیا، ڈونلڈ ٹرمپ نامی مسیحا، اڈیالہ جیل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔

                یہ ہے وہ نیو نارمل (New Normal) یا ”معمولِ نو”، جو پاکستان میں نہایت مضبوطی کے ساتھ خیمے گاڑ چکا ہے۔ اس ”معمولِ نو” کی چولیں عمدگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ مودی کی بے سروپا جنگجوئی نے پاکستانیت کے احساس کو نئی جِلا بخشی ہے۔ اس توانا اور تازہ دم  ”معمولِ نو” کے سامنے ایک ایسا شکست خوردہ گروہ ہے جو  اپنے تمام پتے کھیل چکاہے۔ اسٹیلبشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتے دیتے  اس کے ہاتھوں سے لہو  رسنے لگا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو  رہی۔

                ایسے میں ایک بار پھر شاہراہوں کو بندکرنے، عوام کو سڑکوں پہ لانے اور انقلاب بپا کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ ”معمولِ نو” (New Normal) یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، مسکرا  رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجو جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں آزاد کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ سنی اتحادکونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں، ججز آئینی بینچ معصومیت کا قتل: پاکستان میں بھارت کی پراکسی جنگ گرمی کی لہر فطرت کا انتقام یا انسانوں کی لاپروائی؟ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسی لڑکیاں: جدید سوچ، پرانے بندھن ایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہ پاکستان میں نوجوان نسل اور سگریٹ نوشی عنوان: پاکستان میں اقلیتی برادریوں کا کردار اور درپیش چیلنجز TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • خان صاحب کا اڈیالہ جیل سے پہلا انٹرویو
  • دونوں ایٹمی دھماکوں میں بچ جانے والا واحد جاپانی شہری
  • پی۔ٹی۔آئی اور ’معمولِ نو (NEW NORMAL)
  • پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL)
  • سندھ میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی ٹیوشن فیس میں 200 فیصد اضافہ، والدین پریشان
  • قابضین کی نابودی کا واحد راستہ مقاومت ہے، جہاد اسلامی
  • گوٹ مِلک