عبدالواحد صاحب،’اسے ڈھونڈتے میرؔ کھوئے گئے‘
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
گجرات کچہری چوک سے بھمبر روڈ پر سفر شروع کریں توکچھ آگے زمیندارکالج ہے۔ گھنے درختوں میں گھرا اور پھولدار پودوں سے لدا ہوا، اینگلو انڈین طرز تعمیرکا شاہکار یہ کالج پہلی نظر ہی میں نووارد طلبہ کو اپنا دیوانہ بنا دیتا تھا، وہیں دور ونزدیک کے نوجوان اساتذہ کے دل بھی بطور لیکچرراسے جوائن کرنے کے لیے تڑپتے تھے۔
راولپنڈی کے عبدالواحد صاحب نے بھی جب پہلی بار یہ کالج دیکھا، تو بس دیکھتے ہی رہ گئے، ان کے بڑے بھائی اسی کالج میں انگریزی کے لیکچررتھے۔ چنانچہ جیسے ہی کالج میں اردو لیکچرر کی اسامی نکلی۔ واحد صاحب زمیندارکالج اکیڈیمک اسٹاف کا حصہ بن گئے۔ بقول ان کے، یہ خواب ان کا پورا ہوا، تو جیسے ان کی زندگی کے سارے خواب پورے ہو گئے۔ مجھے فرسٹ ایئر اردوکا وہ پہلا پیریڈ آج بھی یاد ہے۔
کلاس روم طلبہ سے بھر چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں واحد صاحب حاضری رجسٹر تھامے کلاس روم میں داخل ہوئے، متناسب قامت، گھنے بال، جو تیزی سے سفید ہو رہے تھے، کالے فریم والی نظر کا چشمہ، بھورے رنگ کی نفیس شلوار قمیص پر میچنگ واسکٹ، واحد صاحب کی شخصیت بڑی دلکش معلوم ہو رہی تھی۔
پہلے پیریڈ ہی میںطلباء ان کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ واحد صاحب کی ذاتی توجہ اور شفقت البتہ مجھے اس وقت حاصل ہوئی، جب کالج کے سالانہ ٹیسٹ کے نتائج آئے ۔ میں اردو میں بہت اچھے نمبروں کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ جب واحد صاحب نے کلاس روم میں آتے ہی سب سے پہلے میرا رول نمبر پکارا تو میں ڈر گیا کہ خدا خیر کرے۔ لیکن پھر حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی ، جب انھوں نے پوری کلاس کو میرا امتحانی پرچہ دکھاتے ہوئے کہا کہ میں تو صرف اس کا پرچہ دیکھ کے خوش ہوا ہوں۔ بس اس روزکے بعد میں گویا ان کے چہیتے شاگردوں میں شامل ہو گیا۔
واحد صاحب ان دنوں سیالوی روڈ گجرات پر پرانی طرزکی ایک پیلی کوٹھی میں کرایہ پر رہتے تھے۔ عشق لاحاصل کے بعد تنہائی ہی کو اپنا ’جیون ساتھی‘ بنا چکے تھے۔ شام کو البتہ کھانا پکانے کے لیے کوئی باورچی آ جاتا تھا۔ یہیں سے روزانہ سائیکل پرکالج پہنچتے تھے۔ یہ پیلی کوٹھی ہمارے گھر کے قریب ہی تھی، اس لیے اب کالج اوقات کے بعد بھی ان سے ملاقات رہنے لگی تھی۔ اس کے صحن میں کبھی کبھار ہم کچھ طلبہ کی چائے سے تواضع بھی کرتے۔ ان کی گفتگو میںکیرئیر، روپیہ پیسہ یا گھر بنانے کی تگ ودو کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ شعروادب ہی اول و آخر ان کے موضوعات تھے۔
شام کے بعد وہ گھر سے کم ہی نکلتے۔ اس سمے جب کبھی ان کے گھر جانا ہوا، ہمیشہ ان کو اپنے کمرے میں بستر پر ٹیک لگائے لیمپ کی روشنی میں مطالعہ کرتے پایا۔ ان کی طبع نازک کو میر تقی میرؔ، میر دردؔ اور ناصرؔ کاظمی سے خاص مناسبت تھی، بلکہ میرؔ کو غالبؔ پر فوقیت دیتے تھے۔ میرؔ کو پڑھنے اور سمجھتے کا سلیقہ میں نے واحد صاحب ہی سے سیکھا، ورنہ ’سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا کہ ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے‘۔
واحد صاحب کے مشفق سایہ میں کالج کے سہانے دن کسی مہکتے تیز جھونکے کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوگئے۔ میں پڑھنے کے لیے لاہور آگیا، تب بھی ابتدائی طور پر ان سے برابر رابطہ رہا، لیکن پھر یہاں نوکری اور گھرداری کے جھنجھٹوں نے ان کے گھر کا راستہ بھی بھلا دیا۔ کئی برس اسی خود فراموشی میں بیت گئے۔ ایک مدت بعد زندگی میں کچھ ٹھیراو آیا اور مڑ کے دیکھا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ جی چاہا کہ وہ پیلی کوٹھی ہی دیکھ آوں۔ پر، وہاں گیا تو وہ کالی کوٹھی اب دیکھنے کو بھی میسر نہ تھی، سب مٹ چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد واپس راولپنڈی چلے گئے تھے اور ان دنوں واہ کینٹ میں کسی بہن کے گھر انیکسی میں زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں۔
ایک دوست کی مہربانی سے ان کا سیل نمبر مل گیا۔ یہ وبا کے دن تھے۔ ایک روز ان کا نمبر ملایا۔ آہستگی کسی نے پوچھا، ’جی، فرمائیے؟‘۔ ’سر، میں آپ کا شاگرد اصغر عبداللہ ہوں۔‘ کچھ توقف کے بعد، جیسے کچھ یادکر رہے ہوں، ان کی وہی کالج کے زمانے کی جانی پہنچانی آواز سنائی دی،اگرچہ آج اس میں بڑھاپے کی افسردگی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔’آہا، اصغر میاں، خیریت سے ہو؟ میں تو سمجھا تھا، گجرات کے اکثر باسیوں کی طرح تم بھی کہیں دور دیس چلے گئے ہو۔‘ ان کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں، اور ایکا ایکی بیتے دنوں کی اتھاہ گہرائیوں سے وہ پرانی پیلی کوٹھی پھر نظروں کے سامنے آ گئی ۔
باہر بارش سے پہلے کی تیز ہوا چل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ لمبی بات کرنے میں ان کو دقت ہو رہی ہے۔ ’سر میں واہ کینٹ میں آپ کو ملنے آوں گا۔‘ میں نے کہا۔ ’میرے پاس تو وقت ہی وقت ہے اصغر، انھوں نے کہا، ’لیکن، اس وبا اور خراب موسم میں مجھ بوڑھے کے لیے خودکو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہو۔ موسم ذرا کھل جائے دو، اوردیکھو۔ لیکن، یہ موسم پھر کبھی نہیں کھلا، ان کی وہ شفیق آواز پھر کبھی سنائی نہیں دی۔ بقول میرؔ،گلی میں اس کے گیا، سو گیا نہ بولا پھر، میں میرؔ میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا۔کچھ مدت بعد اسی نمبر پر دوبارہ کال کی تو معلوم ہوا کہ ہمارے عبدالواحد صاحب اور ان کی تنہائی کب کے تہ خاک بسرام کر چکے۔ حافظ ؎
نسیم زِلف تو چون بگزرد بتربت حافظؔ
ز خاک کالبدش صد ہزار نالہ برآید
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: واحد صاحب کے لیے کے بعد ہی تھی
پڑھیں:
متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرینگے، کسی جگہ پر قبضہ ہونا کمشنر، ڈپٹی کمشنر کی ناکامی: مریم نواز
لاہور+ ننکانہ صاحب+ واربرٹن+سانگلہ ہل ( نیوز رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ نامہ ناگاران) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ننکانہ صاحب کے دیہات پہنچ گئیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ننکانہ صاحب شہر اور دیہات کا ڈھائی گھنٹے طویل مسلسل دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے ننکانہ صاحب میں سیلابی ریلوں سے بچاؤ کے لئے دو فلڈ ڈرین بنانے کا اعلان کیا۔ ننکانہ صاحب کی روڈز اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ننکانہ صاحب کی بیوٹیفکیشن کا پلان دو ہفتے میں طلب کیا اور اس کے لئے فنڈز کے جلد از جلد اجراء کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ نے ضلع ننکانہ صاحب کے لئے الیکٹرک بسوں کی تعداد بڑھانے کا اعلان بھی کیا۔اور ننکانہ صاحب کو ماڈل سٹی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے سکول کے سامنے زیبرا کراسنگ اور سائن بورڈ یقینی بنانے کی ہدایت کی اور روٹی کے نرخ کنٹرول کرنے کا حکم دیا۔ مریم نواز شریف نے ننکانہ صاحب کے لئے کلینک آن ویل کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا اور شہر کے داخلی راستوں، روڈز کو بہتر بنانے اور شہر کی مرکزی سڑک کے اطراف میں بہترین شولڈر بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ڈفرکھوکھراں اور دیگر دیہات کو مثالی گاؤں سکیم میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ وزیراعلیٰ نے جسلانی موڑ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب سے متاثرہ گھروں اور زرعی اراضی کا معائنہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے میراں پور گاؤں میں پی ڈی ایم اے کی جانب سے امدادی سامان کی تقسیم کا آغاز کیا۔ پی ڈی ایم اے سیلابی ریلے سے متاثرہ خاندانوں کو خصوصی کٹ، مچھر دانی اور ملبوسات فراہم کررہی ہے۔ مریم نواز شریف نے سیلاب متاثرین سے ملاقات اور بات چیت کی۔ بزرگ خواتین نے مثالی گاؤں بنانے کے اعلان پر وزیرعلیٰ مریم نواز شریف کو دعائیں دیں۔ مریم نواز شریف نے سب خواتین سے باری باری ہاتھ ملایا اور کہا کہ ’’تہانوں ملن آئی آں، تے گلاں وی کرنیاں نے‘‘۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ننکانہ صاحب کے علاقے دھولار چوک، گوردوارہ جنم استھان چوک، ڈی پی ایس چوک، بیری چوک، چونگی چوک، ریلوے روڈ، پیر احمد شاہ روڈ اور مانانوالہ پھاٹک کے علاقوں کا بھی دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کو دیکھ کر عوام کا جم غفیر لگ گیا اور بچے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے پاس آگئے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے بچوں کو سویٹس کے تحائف پیش کیے، بچوں سے بات چیت کی۔ وزیراعلیٰ نے عوام سے سیلابی ریلوں اور بارشوں پر انتظامیہ کے اقدامات کے بارے میں دریافت کیا۔ مریم نواز شریف نے ڈپٹی کمشنر آفس میں ننکانہ صاحب کے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی۔ ڈپٹی کمشنر ننکانہ نے سیلابی صورتحال اور جاری ترقیاتی منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ننکانہ صاحب میں ندی نالے اور نہروں کے اوور فلو ہونے سے 1525 ایکڑ رقبہ زیر آب آگیا۔ وزیراعلیٰ نے ننکانہ صاحب میں ہمت کارڈ کے مستفید افراد کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا۔ ننکانہ صاحب میں اپنی چھت، اپنا گھر پراجیکٹ کے تحت 788 لون جاری کیے جا چکے اور 400گھر زیر تعمیر ہیں۔ سبسڈی پر 176 گرین ٹریکٹرز دیئے گئے، گندم کے کاشتکاروں کو بیس ٹریکٹرز مفت ملے۔ ننکانہ صاحب میں 267 لائیو سٹاک، 1715 منیارٹی کارڈدئیے گئے اور 242 زرعی ٹیوب ویل سولر سکیم میں شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلابی ریلوں سے متاثرہ فصلوں اور لائیو سٹاک کے نقصان کا ازالہ کریں گے۔ سیلابی ریلے سے گرنے والے کچے گھروں کے مکینوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔ کسی جگہ پر قبضہ ہونا متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی ناکامی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ ماضی میں پنجاب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ عوام کے مسائل کے حل کیلئے مجھے بہت زیادہ فکرہوتی ہے۔ عوام کی خدمت مہربانی نہیں، میرا فرض ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف ڈی سی آفس ننکانہ صاحب سے بغیر شیڈول ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچ گئیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی اور دیگر وارڈز کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ہسپتال میں موجود مریضوں اور تیمارداروں سے دستیاب سہولتوں کے بارے میں دریافت کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ہر مریض سے مفت میڈیسن کے بارے میں دریافت کیا اور پرچیاں چیک کیں۔ مریم نواز نے ہسپتال کی مرکزی انتظارگاہ میں دستیاب میڈیسن اور ان کی تعداد بورڈ پر آویزاں کرنے کو سراہا۔ وزیراعلیٰ نے مریضوں کی آمد، تشخیص اور ادویات کی فراہمی کا کا وقت چیک کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ہر مریض کی اوسطاً ڈیڑھ گھنٹے کے اندر تشخیص اور ادویات کی فراہمی پر اظہار تحسین کیا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کا واربرٹن کے سیلاب متاثرہ دیہات کا دورہ، کسانوں کے نقصان کے ازالے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے کسانوں کی فصلوں کو ہونے والے نقصان کا مکمل ازالہ کیا جائے گا، اور دیہی علاقوں میں صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات جاری ہیں۔ دوسری جانب مریم نواز نے قلات میں قتنہ الہندوستان کے خلاف کامیاب کارروائی پر اظہار تشکر کیا۔ وزیراعلیٰ نے 8 دہشتگردوں کو ہلاک کرنے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔