لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)نان چھانگ(شِنہوا)دریائے گان کے اوپر صبح کی دھند چھائی ہوئی تھی جب 16 چپو ایک ساتھ پانی کو چیر رہے تھے۔ سوژو یونیورسٹی میں پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم عبدالسمیع ڈھول کی تھاپ پر ’’ہے ہے ہے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے 800 میٹر دوڑ میں دنیا بھر کی ٹیموں کے خلاف اپنی ٹیم کی رہنمائی کر رہے تھے۔چین کے ڈریگن بوٹ فیسٹیول کے موافق منعقد ہونے والے 2025 نان چھانگ انٹرنیشنل ڈریگن بوٹ مقابلے میں دنیا کے مختلف ممالک سے 50 ٹیموں کے ایک ہزار 500 کھلاڑی شریک ہوئے۔ 2023 میں چین آنے والے عبدالسمیع دوسری مرتبہ نان چھانگ مقابلے میں شریک ہوئے۔
سمیع نے اپنے ہاتھوں پر تربیت کے دوران پڑنے والے نشان دکھاتے ہوئے کہا کہ میں یہاں آنے سے پہلے اس روایت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اب میں جانتا ہوں کہ یہ تقریب قدیم چینی شاعر چو یوآن کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ان کا یہ سفر 2023 میں سوژو یونیورسٹی کی تعارفی تقریب کے دوران شروع ہوا جب انہوں نے "بین الاقوامی چپو بازوں" کی بھرتی کا ایک پوسٹر دیکھا۔ ہمیشہ سے کھیلوں کے شوقین ہونے کی وجہ سے انہوں نے یونیورسٹی کی ڈریگن بوٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعر چو یوآن کی کہانی بھی جاننا شروع کی جو چھو بادشاہت کے دور میں احتجاجاً دریا میں کود گیا تھا۔
چائنہ سپورٹس گروپ کے کوچ لی شِن نے کہا کہ ڈریگن بوٹ دوڑ صرف چپو چلانے کا کھیل نہیں ہے۔ جب بین الاقوامی طلبہ اپنے ساتھیوں کو اس کی تاریخ کے بارے میں سکھاتے ہیں تو یہ حقیقی ثقافتی تبادلہ بن جاتا ہے۔سمیع کی لگن انہیں آنہوئی کے شہر ہوانگ شان کے پرسکون پانیوں سے ہیبے کی کانگ باؤ کاؤنٹی تک لے گئی جہاں ان کی ٹیم نے 2024 سے 2025 کے اوائل تک سیاہ ٹائل کی چھتوں والے سفید دیواروں والے گھروں کے ساتھ کشتی چلائی۔ انہوں نے منفی15 ڈگری سینٹی گریڈ کی سخت سردی میں برف پر ہونے والی آئس ڈریگن بوٹ ریس میں حصہ لیا اور جمی ہوئی جھیلوں پر خصوصی کشتیوں کو کھینچا۔
منتظمین نے مفت ساز و سامان اور کوچنگ فراہم کی۔ کوچ لی نے کہا کہ ہم یونیسکو کے تسلیم شدہ اس غیر مادی ثقافتی ورثے کو بانٹنے کے لئے پرعزم ہیں۔2009 میں ڈریگن بوٹ فیسٹول کو یونیسکو کی انسانیت کی غیر مادی ثقافتی ورثے کی نمائندہ فہرست میں شامل کیا گیا۔ یہ چین کا پہلا تہواربن گیا جسے عالمی ثقافتی پہچان ملی۔اس تہوار کی سب سے قدیم اور ثقافتی طور پر اہم روایات میں سے ایک ڈریگن بوٹ دوڑ مشترکہ کوشش، استقامت، امن، ترقی اور انصاف کے مشترکہ انسانی خواب پر مبنی ہے۔سمیع نے گھومتے ہوئے ریس کورس کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ڈریگن بوٹنگ کی اصل روح ٹیم ورک ہے، اپنے ساتھیوں پر بھروسہ کرنا، ہم آہنگی سے چلنا اور تھکن کے باوجود کوشش کرنا۔ جب تماشائیوں کی خوشی کی آوازیں آپ کو گھیر لیتی ہیں اور آپ سب مل کر اختتامی لائن عبور کرتے ہیں تو وہ اجتماعی کامیابی ایک ایسی 'چینی یادگار' بن جاتی ہے جسے میں ہمیشہ سنبھال کر رکھوں گا۔

 جو آج کامیابی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں، وہی جنگ کو جعلی قرار دے رہے تھے: عظمٰی بخاری 

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: ڈریگن بوٹ انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے

لاہور:

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور کاروبار شروع کرنے میں طرح طرح کی ایسی مشکلات کہ اللہ کی پناہ، اگر کسی طریقے سے کاروبار شروع ہو جائے تو درجنوں ادارے تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کی قیمتوں نے پوری کر دی۔

بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل اور مہنگا ترین کام، اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو اس حساب سے نہ ملازمت اور نہ تنخواہیں، انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی اپنے بہن، بھائی اور والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب کو روتے دھوتے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

ایکسپریس نیوز کو محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/GOlYfc9G-jBGrqoj9.html

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔

باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔

خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
  • 3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • 3سال، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • ملالہ یوسف زئی کا پاکستان میں سیلاب متاثرہ طلبہ  کیلئے 2 لاکھ 30 ہزار ڈالر امداد کا اعلان
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • کراچی، نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار شخص جاں بحق
  • چیئرمین سی ڈی اے سے قازقستان کے سفیر یرژان کیستافین کی ملاقات، شہری تعاون، ثقافتی تبادلے اور ماحول دوست منصوبوں پر تفصیلی گفتگو
  • صاحبزادہ فرحان کا اعزاز، بمرا کو چھکا جڑنے والے پہلے پاکستانی بیٹر بن گئے