اسٹیل سے بھی مضبوط بیکٹیریا فائبر سے بنے پائیدار ملبوسات
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
برطانیہ کی ایک بایوٹیک کمپنی ماڈرن سنتھیسس نے فیشن اور سائنس کے ملاپ سے ایک حیران کن تجربہ پیش کیا ہے۔ اس کمپنی نے ایسے فائبرز تیار کیے ہیں جو زندہ بیکٹیریا کی مدد سے بنائے جاتے ہیں اور ان کی مضبوطی اسٹیل سے آٹھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔
ان فائبرز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ قدرتی طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور ان کی تیاری میں نہ زہریلے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں، نہ ہی پانی کا بے تحاشا ضیاع ہوتا ہے۔ اس طرح یہ نئی نسل کے کپڑے ماحول دوست، پائیدار اور پُرکشش ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان بیکٹیریا کو ایک مخصوص اور محفوظ ماحول میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ حیاتیاتی عمل کے ذریعے انتہائی باریک مگر بےحد مضبوط ریشے بناتے ہیں۔ یہ فائبرز نہ صرف وزن میں ہلکے اور لچکدار ہوتے ہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر دیرپا بھی ہیں۔ ان کا استعمال روایتی ملبوسات کے مقابلے میں زمین پر آلودگی کے نقوش انتہائی کم چھوڑتا ہے۔
یہ نئی ٹیکنالوجی ماحولیاتی تحفظ کے کئی اہم پہلوؤں پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔ مثلاً، ان فائبرز سے تیار ہونے والے کپڑے حیاتیاتی طور پر تحلیل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یعنی اگر انہیں زمین میں پھینک دیا جائے تو وہ بغیر کسی نقصان کے گل سڑ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، روایتی ملبوسات دہائیوں تک زمین پر موجود رہتے ہیں اور ماحولیاتی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
پانی کی بچت اس ٹیکنالوجی کا ایک اور اہم فائدہ ہے۔ عام کپڑے، خاص طور پر ڈینم اور کاٹن، تیار کرنے کے لیے ہزاروں لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔ مگر بیکٹیریا سے بننے والے فائبرز میں پانی کی ضرورت نہ ہونے کے برابر ہے، جو پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک قابلِ عمل حل ہو سکتا ہے۔
پائیداری کے لحاظ سے بھی یہ ملبوسات قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی لمبی عمر اور مضبوطی نہ صرف صارفین کو بار بار خریداری سے بچاتی ہے بلکہ فیشن انڈسٹری کو ’تیز فیشن‘ کے تباہ کن ماڈل سے ہٹنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے، مگر آنے والے چند برسوں میں یہ ایک عام فیشن ٹرینڈ بن سکتی ہے۔ بہت سی بین الاقوامی کمپنیاں اس سمت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں تاکہ ماحول دوست فیشن کو تجارتی سطح پر لایا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صدر منہاج القرآن نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ منہاج القرآن کی مرکزی نظامتِ دعوت کے اسکالرز کے وفد نے نائب ناظمِ اعلیٰ علامہ رانا محمد ادریس قادری کی قیادت میں صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری سے ملاقات کی۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مبلغ کو کردار اور علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہئے۔ جدید ذرائع ابلاغ کو اصلاح معاشرہ کیلئے استعمال کیا جائے۔ استاد، مبلغ یا داعی ہر معاشرہ کے رول ماڈل افراد ہوتے ہیں۔ داعی کی تربیت پر سخت محنت ناگزیر ہے۔موجودہ دور کا داعیِ اسلام صرف علم ہی نہیں بلکہ کردار اور ابلاغ کے میدان میں بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ علم کے بغیر دعوت گہرائی کھو دیتی ہے، کردار کے بغیر اثر ختم ہو جاتا ہے، اور ابلاغ کے بغیر پیغام نہیں پہنچتا۔
انہوں نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اور اسکالرز کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہنی و فکری رجحانات کو سمجھ کر دین کو اُن کی زبان میں پیش کریں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ تحریکِ منہاج القرآن علم و کردار کے حسین امتزاج کی نمائندہ تحریک ہے جس کا مقصد معاشرے میں علمی بیداری، فکری تطہیر اور عملی تبدیلی لانا ہے۔
انہوں نے نظامتِ دعوت کے اسکالرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خطابات، دروس، اور تحریروں میں دین کے اخلاقی و روحانی پہلو کو اجاگر کریں تاکہ نئی نسل اسلام کی اصل روح سے روشناس ہو سکے۔ اس موقع پر مرکزی ناظمِ دعوت علامہ جمیل احمد زاہد، قاری ریاست علی چدھڑ اور دیگر اسکالرز بھی ملاقات میں شریک تھے۔