سماجی ترقی و غربت کے خاتمے پر عالمی اتفاق، دوحہ سیاسی اعلامیہ منظور
اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT
دنیا بھر میں بڑھتے جغرافیائی تنازعات اور معاشی عدم مساوات کے پس منظر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری سماجی ترقی پر دوسری عالمی سربراہی کانفرنس کے دوران عالمی رہنماؤں نے ’دوحہ سیاسی اعلامیہ‘ کی متفقہ منظوری دے دی۔
یہ بھی پڑھیں: صدر زرداری کی سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور
یہ اعلامیہ منصفانہ، پائیدار اور شمولیتی معاشروں کی تشکیل کے لیے عالمی عزم کی نئی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
اعلامیے کی منظوری کے ساتھ ہی حکومتوں نے عہد کیا کہ وہ غربت کے خاتمے، باعزت روزگار کے مواقع کے فروغ، امتیاز کے خاتمے، سماجی تحفظ کی توسیع اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں گی۔
اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سماجی ترقی نہ صرف اخلاقی ذمے داری ہے بلکہ امن، استحکام اور پائیدار ترقی کی بنیادی شرط بھی ہے۔
کانفرنس میں عالمی قیادت کی بھرپور شرکتکانفرنس میں 40 سے زائد سربراہان مملکت و حکومت، 170 سے زیادہ وزارتی نمائندے، بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان، سول سوسائٹی، نوجوان رہنماؤں اور ماہرین سمیت 14 ہزار سے زائد شرکا شریک ہیں۔
اعلامیے کی نمایاں نکاتدوحہ اعلامیہ سنہ 1995 کے کوپن ہیگن اعلامیے اور پائیدار ترقی کے ایجنڈا 2030 کے تسلسل میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ سماجی ترقی کے 3بنیادی ستونوں غربت کا خاتمہ، مکمل و پیداواری روزگار اور سب کے لیے باعزت کام پر مبنی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سماجی انصاف، امن، سلامتی اور انسانی حقوق ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیے: غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ رہا ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
اس میں موسمیاتی تبدیلی پر ہنگامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کو اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے۔
اعلامیہ میں ادیس ابابا ایکشن ایجنڈا کو پائیدار ترقی کے فریم ورک کا لازمی جزو قرار دیتے ہوئے مضبوط اور نمائندہ عالمی اداروں کے قیام کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
اعلامیے پر عمل درآمد کی نگرانی اقوام متحدہ کا سماجی ترقیاتی کمیشن کرے گا۔
’ترقی کا بوسٹر شاٹ‘: اقوام متحدہ کے سربراہ کا پیغاماقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اجلاس سے خطاب میں خبردار کیا کہ پائیدار ترقی کے اہداف پر پیشرفت انتہائی سست ہے۔ ان کے بقول دوحہ اعلامیہ ترقی کے لیے ایک بوسٹر شاٹ ہے جو سماجی تحفظ کے دائرے کو وسیع، صحت و تعلیم تک مساوی رسائی یقینی، اور ڈیجیٹل خلا کم کرنے میں مدد دے گا۔
انہوں نے عالمی مالیاتی نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے بوجھ اور موسمیاتی مالیات کی غیر منصفانہ تقسیم سے نجات دلانا ناگزیر ہے۔
’کوئی پیچھے نہ رہ جائے‘، جنرل اسمبلی کی صدر کا پیغاماعلامیے کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے کہا کہ عالمی برادری کو یقینی بنانا ہوگا کہ ترقی کی دوڑ میں ’کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بے روزگاری اور انتہائی غربت میں کمی آئی ہے مگر عدم مساوات بدستور گہری ہے جس کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور نوجوانوں پر پڑ رہا ہے۔
ان کے مطابق صرف معاشی ترقی کافی نہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلی، آبادی کے دباؤ اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے جامع اور مربوط حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔
مزید پڑھیں: اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پہنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے 17 اہداف ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ایک شعبے میں پیشرفت دوسرے شعبوں میں بہتری کا باعث بنتی ہے اور انسانی سلامتی ہی عالمی سلامتی کی بنیاد ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پائیدار ترقی کے اقوام متحدہ کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ غزہ میں عالمی سیکیورٹی فورس کے قیام کی منظوری دے،امریکا
امریکا نے اقوام متحدہ سے غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی منظوری طلب کرلی ہے، جس کا مینڈیٹ کم از کم 2 سال کے لیے ہوگا۔
امریکی ویب سائٹ ’ایکسِیوس‘ نے منگل کو رپورٹ کیا کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے کئی رکن ممالک کو ایک ڈرافٹ قرارداد بھیجی ہے، جس میں غزہ کی پٹی میں سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے مجوزہ فورس کے قیام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
ایکسِیوس (نے اس ڈرافٹ کی ایک کاپی حاصل کی) کے مطابق یہ قرارداد حساس مگر غیر خفیہ قرار دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرارداد امریکا اور دیگر شریک ممالک کو غزہ کے نظم و نسق کے لیے 2027 کے اختتام تک سیکیورٹی فورس تعینات کرنے کا وسیع اختیار دیتی ہے، اور اس مدت میں توسیع کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
یہ فورس ’غزہ بورڈ آف پیس‘ کے مشورے سے قائم کی جائے گی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق یہ بورڈ بھی کم از کم 2027 کے اختتام تک قائم رہے گا۔
تاہم، ایک امریکی عہدیدار نے ’ایکسِیوس‘ کو بتایا کہ آئی ایس ایف پرامن مشن نہیں بلکہ نفاذی فورس ہوگی، ہدف یہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں قرارداد پر ووٹنگ ہو جائے اور پہلے فوجی جنوری تک غزہ پہنچا دیے جائیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ ڈرافٹ سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان آئندہ مذاکرات کی بنیاد بنے گا، اس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس ایف کو غزہ کی سرحدوں کی سیکیورٹی (اسرائیل اور مصر کے ساتھ)، عام شہریوں اور امدادی راہداریوں کے تحفظ، ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت اور شراکت داری کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
ڈرافٹ کے مطابق آئی ایس ایف غزہ میں سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے ذمہ دار ہوگی، جس میں غزہ پٹی کو غیر عسکری بنانا، عسکری و دہشت گرد انفرااسٹرکچر کی تباہی اور دوبارہ تعمیر کی روک تھام، غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ہتھیار مستقل طور پر ضبط کرنا شامل ہوگا۔
ایکسِیوس کے مطابق اس سے اشارہ ملتا ہے کہ فورس کا مینڈیٹ حماس کو غیر مسلح کرنے تک پھیلا ہوا ہے، اگر وہ خود ایسا نہیں کرتی تو عالمی فورس یہ کام کرے گی۔
مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایس ایف کو غزہ میں ’بورڈ آف پیس کو قابلِ قبول متحدہ کمان‘ کے تحت تعینات کیا جائے گا اور مصر و اسرائیل کے ساتھ قریبی مشاورت و تعاون کیا جائے گا۔
مجوزہ فورس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی قوانین، خصوصاً انسانی قوانین کے مطابق تمام ضروری اقدامات کرے۔
ایکسِیوس کے مطابق آئی ایس ایف کا مقصد عبوری دور میں غزہ میں سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، جس دوران اسرائیل بتدریج مزید علاقوں سے انخلا کرے گا اور فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحاتی اقدامات کے ذریعے طویل المدتی طور پر غزہ کا انتظام سنبھالنے کے قابل ہوگی۔
ڈرافٹ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ بورڈ آف پیس کو عبوری انتظامی ادارے کے طور پر اختیارات تفویض کیے جائیں گے، اس کے تحت بورڈ ایک غیر سیاسی، ٹیکنوکریٹ فلسطینی کمیٹی کی نگرانی کرے گا جو غزہ کی سول انتظامیہ اور روزمرہ معاملات کی ذمہ دار ہوگی۔
قرارداد میں یہ بھی شامل ہے کہ امداد کی ترسیل بورڈ آف پیس کے تعاون سے اقوام متحدہ، ریڈ کراس، اور ریڈ کریسنٹ کے ذریعے کی جائے گی، اور اگر کوئی تنظیم اس امداد کا غلط استعمال یا انحراف کرے تو اسے پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔