پاکستان کا اقوام متحدہ سے غزہ میں نسل کشی روکنے کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک:پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی روکنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک پُرزور بیان دیتے ہوئے سفیرِ پاکستان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری انسانی بحران اور اسرائیلی مظالم پر مزید خاموشی ناقابلِ قبول ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ سلامتی کونسل اپنے مینڈیٹ کے مطابق فوری، مؤثر اور عملی قدم اٹھائے۔
یوم تکبیر ،چیئرمین ہلال احمر ڈاکٹر سعید الہٰی کی قیادت میں ریلی
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ دنیا مزید ایک دن کی بے عملی کی متحمل نہیں ہو سکتی، کیونکہ تاریخ ہمیں ہماری ذمے داری سے بری الذمہ نہیں کرے گی،انہوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال، خصوصاً مسئلہ فلسطین پر ہونے والی سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران سوال اٹھایا کہ اور کتنے مظالم درکار ہوں گے تاکہ یہ کونسل وہ اقدام کرے جو اخلاقی، قانونی اور اقوام متحدہ کے منشور کے تحت درست ہے؟
ملک بھر میں عید الاضحٰی کا چاند نظر آگیا
انہوں نے واضح کیا کہ صرف تشویش کا اظہار کافی نہیں، بلکہ اب نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری اور عملی اقدام ناگزیر ہے۔ اسرائیلی مظالم کو معمول کا حصہ بننے سے روکنا ضروری ہے کیونکہ ایسا نہ کرنا بین الاقوامی قانون اور انسانی وقار کی صریح توہین ہو گی۔
اپنے خطاب میں سفیر پاکستان نے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار سیگریڈ کاگ، ڈاکٹر فیروز صدیقوا اور انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر کی غیرجانبدار اور دیانت دارانہ خدمات کی بھرپور حمایت کی اور ان پر کی جانے والی کسی بھی غیرضروری تنقید کو ناقابل قبول قرار دیا،انہوں نے غزہ میں جاری تباہی کو ’’ایک انسانی ساختہ بحران‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیل کی طویل ناکا بندی، اندھادھند بمباری اور عام شہریوں پر مسلسل حملوں کا نتیجہ ہے۔
لودھراں میں لڑکی سے زیادتی میں ملوث ملزم گرفتار
انہوں نے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ اب تک 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ 122,000 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ المیہ ’’ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیان ذہنی و جسمانی اذیت‘‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔
پاکستانی مندوب نے بحران کے 4 اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ 800 سے زائد طبی مراکز کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، اسپتالوں میں بنیادی سامان موجود نہیں اور طبی عملے و ایمبولینسز پر بھی حملے ہو رہے ہیں،اسی طرح کم از کم 57 بچے بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ انسانی امدادی قافلوں کو یا تو روکا جا رہا ہے یا ان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔
چاولوں کی قیمت میں اضافہ
80 فی صد سے زائد گھروں کو مسمار کر دیا گیا ہے، جب کہ پانی، بجلی اور مواصلاتی نظام بھی تباہی کا شکار ہو چکے ہیں،28 ہزار سے زیادہ خواتین اور بچیاں شہید ہو چکی ہیں اور 50,000 حاملہ خواتین انتہائی غیر انسانی حالات میں بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔
سفیر پاکستان عاصم افتخار نے مغربی کنارے میں بھی بگڑتی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا، جہاں گھروں کی مسماری، پرتشدد کارروائیاں اور نقل و حرکت پر سخت پابندیاں معمول بن چکی ہیں۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی حکام کے اشتعال انگیز دوروں کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات پورے خطے کو شدید کشیدگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
اے ایف آئی سی میں بھارت سے بغیر آپریشن آنیوالے بچوں کی کامیاب سرجری
پاکستان نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ قرارداد 2735 پر مکمل عملدرآمد اور شہریوں پر حملے فوری رکوائے جائیں۔ انسانی امدادی اداروں کی بلا رکاوٹ رسائی اور تمام پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کسی بھی کوشش کی واضح مذمت کی جائے اور دو ریاستی حل کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل، جس میں القدس الشریف کو خودمختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔
پاکستان کی جانب سے جون میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کو مسئلہ فلسطین کے سیاسی حل کے لیے ایک اہم موقع قرار دیا گیا اور زور دیا گیا کہ موجودہ بحران کے خاتمے کے لیے فوری اور متحد عالمی اقدام نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی ضمیر اور اقوام متحدہ کی ساکھ کے لیے بھی فیصلہ کن لمحہ ہے۔
سفیر پاکستان نے آخر میں دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’اب ابہام کی کوئی گنجائش نہیں رہی، فلسطینی عوام کی تکالیف کے لیے کوئی جواز نہیں۔ جی ہاں، بس بہت ہو چکا۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
کراچی لیاری سانحہ: چیئرمین آباد کا اظہار افسوس، خستہ حال عمارتوں پر فوری کارروائی کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں 8 منزلہ مخدوش عمارت کے منہدم ہونے سے 5 سے زائد افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
آباد کے چیئرمین نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زخمیوں کو فوری اور مکمل طبی امداد فراہم کی جائے اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے ریسکیو ٹیموں کو بھرپور وسائل فراہم کیے جائیں۔
محمد حسن بخشی نے کہا کہ یہ افسوسناک سانحہ شہر میں موجود درجنوں دیگر مخدوش عمارتوں کی سنگین صورتحال کی طرف ایک بار پھر توجہ دلاتا ہے، اگر ان عمارتوں کی بروقت مرمت یا رہائشیوں کی منتقلی نہ کی گئی تو مستقبل میں ایسے مزید دلخراش حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔
چیئرمین آباد نے کہا کہ آباد کے ممبران اس آزمائش کی گھڑی میں متاثرین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ متاثرہ خاندانوں کی مالی، نفسیاتی اور رہائشی بحالی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے تاکہ وہ اس سانحے کے اثرات سے نمٹ سکیں۔
انہوں نے کراچی میں عمارتوں کو تین زمروں میں تقسیم کرتے ہوئے وضاحت کی کہ پہلی قسم وہ عمارتیں ہیں جو آباد کے ممبر بلڈرز کے ذریعے قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیر کی گئی ہیں، دوسری وہ عمارتیں ہیں جو 50 سال یا اس سے پہلے تعمیر ہوئیں اور اب خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ تیسری وہ عمارتیں ہیں جو بغیر نقشے کی منظوری، ناقص تعمیراتی مٹیریل اور غیر تربیت یافتہ افراد کے ذریعے غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں، یہی عمارتیں انسانی جانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات میں نہ صرف ناقص مٹیریل استعمال ہوتا ہے بلکہ ان میں کوئی مستند انجینئر یا ٹیکنیکل اسٹاف شامل نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کا گرنا وقت کا مسئلہ بن چکا ہے، آباد متعدد بار ان خطرناک تعمیرات کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہے، مگر حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔
چیئرمین آباد نے سندھ حکومت کو پیشکش کی کہ وہ ان خستہ حال عمارتوں کی جگہ عالمی معیار کی کثیرالمنزلہ، محفوظ اور پائیدار رہائشی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے تیار ہیں، جن میں وہاں کے موجودہ رہائشیوں کو بغیر کسی قیمت کے منتقل کیا جائے گا۔
انہوں نے سندھ اسمبلی سے اپیل کی کہ وہ فوری قانون سازی کرے تاکہ اس منصوبے کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور آباد اس پر عملدرآمد شروع کر سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت مخدوش عمارتوں کے جامع سروے، متاثرہ رہائشیوں کی فوری انخلا اور آباد کی جانب سے پیش کردہ بحالی منصوبے پر سنجیدگی سے غور کرے تاکہ مستقبل میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔