Express News:
2025-11-05@02:48:27 GMT

پاک فضائیہ، بہترین تیاری،بہترین کارکردگی

اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT

بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن سے متعدد مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔بھارت کا سب سے پہلا ہدف سندھ طاس معاہدے کو اپنی مرضی کے مطابق ری-نیگو شی ایٹ کروانا ہے۔ بھارت کا یہ بھی خیال تھا کہ اس مس ایڈونچر میں کامیاب ہو کر وہ امریکا کو یہ پیغام دے کہ چائنا Containmentکا حامل ملک ہے بھارت ہے۔

اب بھارت سفارتی محاذ پر بہت سرگرم ہو چکا ہے۔بھارت نے ماضی کے اپنے اچھے سفارت کار ششی تھرور کو امریکا میں لابنگ کے لیے بھیجا ہے۔ششی تھرور بہت اچھا اور بہت روانی سے بولتے ہیں۔انھوں نے امریکا پہنچ کر اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ششی تھرور کانگریسی سیاست دان ہیں لیکن لگتا ہے انھوں نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے مودی جی کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔یوں تو بھارت نے لابنگ کے لیے کئی ایک وفود بھیجے ہیں لیکن بھارت کا دوسرا اہم وفد مشہور بھارتی مسلمان رہنماء اسد اویسی کی سربراہی میں مشرقِ وسطیٰ بھیجا گیا ہے۔

اسد اویسی بھی اچھے مقرر ہیں۔عرب ممالک مسلمان ممالک ہیں اس لیے ان ممالک میں اسد اویسی جیسے کسی مسلمان کا جانا اہم ہے۔پاکستان نے بھی سفارتی اننی شی ایٹو کا اعلان کیا ہے۔وزیرِ اعظم خود تو نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار بھی سرگرم ہیں لیکن ہمارا سفارتی وفد ابھی تک بیرونِ ممالک لابنگ کے لیے نہیں پہنچا۔اطلاعات کے مطابق ایسا ایک وفد جناب بلاول کی سربراہی میں جلد امریکا پہنچے گا۔ جناب بلاول بہت اچھا بولتے ہیں۔ان کے دورے سے بہت سی امیدیں ہیں لیکن وفد کی روانگی میں تاخیر قرینِ مصلحت نہیں ہے۔وقت پر کیا ہوا تھوڑا کام بھی وقت گزرنے کے بعد بہت سے کام سے بہتر نتائج لاتا ہے۔ہمارے دفترِ خارجہ اور سیکیورٹی اداروں کو محنت کر کے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور بھارتی حملے کے ثبوت وفدکے ہاتھ روانہ کرنے چاہئیں۔

اگر ہمارے وفدکے ہاتھ میں بھارتی دہشت گردی اور حملے کے ثبوت ہوں گے تو بات بنے گی۔ ماضی میں ہم اس سلسلے میں بہت سستی دکھاتے رہے ہیں،لیکن وقت آگیا ہے کہ پاکستان بہت پرو ایکٹو ہو۔سفارتی وفود کی بہت اہمیت ہے لیکن میدانِ جنگ میں بھارت کو جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی وجہ سے بھارتی سفارتی وفود کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔

ہاں جب وہ بیرونِ ممالک اپنی گفتگو میں بار بار پاکستان کا ذکر کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔بھارت پچھلی تین دہائیوں سے کوشش کرتا رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کا تذکرہ نہ ہو لیکن مودی جی پہلگام آپریشن اور پاکستان پر حملہ کر کے انڈیا پاکستان کو ایک بار ازسرِ نو ہائیفن کرنے کی راہ ہموار کر چکے ہیں اور ابھی بھی بھارت جو اقدامات اُٹھا رہا ہے وہ سب بھارتی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں۔

22اپریل2025کو پہلگام فالس فلگ آپریشن کے فوری بعد بھارت پاکستان پر فضائی حملہ کرنا چاہتا تھا۔بھارت نے اس معرکے کے لیے مسلسل 6سال تیاری کی تھی۔بالاکوٹ میں حملہ کر کے ایک کوا ہلاک کرنے کے بعد جب پاکستان نے اعلانیہ جوابی کارروائی کر کے بھارت کو رسوا کیا تو اس وقت سے بھارت مہم جوئی کے لیے تیاری کر رہا تھا بھارت نے فرانس سے دنیا کا مانا ہوا لڑاکا طیارہ رافیل خریدا۔جولائی 2020 میں پہلا رافیل جہاز بھارت پہنچا ۔اگلے ڈیڑھ سال میں رافیل کے دو سکوارڈن بھارت کو مل گئے۔اس کے ساتھ بھارت نے دنیا کا بہترین روسیS-400میزائل سسٹم خریدا جو دسمبر2022 میں بھارت کو مل گیا۔بھارت نے AWACSبھی اپنی افواج کو مہیا کیے اور ڈیٹا لنکنگ بھی کی۔چھ سالہ بھرپور تیاری کے بعد سمجھا گیا کہ اب پاکستان پر حملہ کر کے اسے زیر کیا جا سکتا ہے۔

27اپریل یعنی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے صرف5دن بعد بھارت نے فضائی حملے کی پہلی کوشش کی۔چار رافیل طیاروں نے حملے کے لیے اڑان بھری لیکن جب رافیل کے پائلٹوں نے پاکستانی شاہینوں کو تیار پایا تو واپس چلے گئے۔ چھ اور سات مئی کی درمیانی شب،آدھی رات گزر جانے کے بعد بھارت نے72لڑاکا طیاروں کے ساتھ شدید حملہ کرنے کی کوشش کی۔پاکستان کی جانب سے42 لڑاکا طیاروں نے بھارتیوں کو للکارا۔دونوں طرف ایک ہی قسم کے ہتھیار استعمال میں تھے،ہاں بھارت کے پاس دنیا کے بہترین لڑاکا طیارے رافیل تھے جن پر پوجا پاٹ کی گئی تھی دونوںافواج کے مابین فرق یہ تھا کہ پاک فضائیہ اپنے تمام Assets کوIntegrateکیے ہوئے تھی۔

رافیل کے پاس بہت اچھا حدِ نگاہ سے دور مار کرنے والا Meteor میزائل تھا جس کی رینج150سے200 کلومیٹر تھی۔ پاکستان کے پاس J-10 چینی طیارے تھے اور ان کی کارکردگی کو ابھی تک ٹیسٹ ہونا تھا۔ان چینی طیاروں پر PL-15 میزائل لگا ہوا تھا جس کی عام طور پر رینج145کلو میٹر ہے لیکن چین نے پاکستان کو وہ میزائل پہنچا دئے جن کی رینج 250سے300کلومیٹر ہے۔پاکستان سائبر اور سپیس وار کی صلاحیت بھی حاصل کر چکا تھا اور چین کے سیٹلائٹ جھرمٹ سے جڑا ہونے کی وجہ سے پورے وار تھیٹر کو نگاہ میں رکھے ہوئے تھا لیکن سب سے بڑا فرقMan behind the gunکا تھا۔پاکستانی شاہینوں کا جذبۂ ایمانی اور ان کی لاجواب تربیت کا ثمر انھیں ملنے والا تھا۔جھڑپ کے دوران پاک فضائیہ کے طیارے بھی لاک ہورہے تھے لیکن ان کے پائلٹوں کی تربیت الحمدﷲ اتنی کمال کی تھی کہ وہ مختلف OBLIQUE,VERTICAL N HORIZONTAL چالوں سے لاک ہونے کے بعد لاک کو بریک کرنے میں کامیاب ہو رہے تھے۔

اﷲ کے کرم سے اسی لاجواب مہارت کے طفیل ایک بھی پاکستانی طیارہ نہیں گرا۔S-400کے خلاف دو پائلٹوں کو مشن سونپا گیا اور کہا گیا کہ یہ مشن اتنا خطرناک ہے کہ شاید وہ واپس نہ آئیں لیکن انھیں شوٹ ڈاؤن ہونے سے پہلےS-400کو تباہ ضرور کرنا ہے۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان شاہینوں نے نہ صرف بہترین روسی میزائل سسٹم کو تباہ کیا بلکہ اپنے طیاروں کو بچا کر بخیریت واپس بھی آ گئے۔ہماری فضائیہ نے سائبر،سپیس،الیکٹرانک اور ڈیٹا لنکنگ میں کمال مہارت دکھائی ہے۔ بھارت نے ڈیٹا لنک16 کا استعمال کیا جب کہ پاکستان نے ڈیٹا لنک 17کو کام میں لا کر برتری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

حکومتِ اور پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ ہماری افواج کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے ہمارے بہادر شاہینوں کو ڈیکوریٹ کیا جائے اور سب سے بڑھ کر پاکستان ایئر فورس کے سربراہ جناب ظہیر بابر سدھو کو بہت زیادہ شاباش دیتے ہوئے Reward کیا جائے، جناب سدھو نے ہی بھارتی فضائیہ کو اندھا کیا اور بھارت کی کمر توڑی۔انھوں نے ہی پاکستان کا پرچم بلند رکھا۔افواج پاکستان کو ہمارا سلام۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں بھارت ہیں لیکن بھارت کو بھارت نے حملہ کر کے بعد کے لیے

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • دکھ روتے ہیں!
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج
  • برسوں سے نیشنل ایوارڈ نہ ملنے پر افسوس تھا، شاہ رخ کا اعتراف
  • پنجاب: کرکٹ سیریز کے دوران سیکیورٹی کے بہترین انتظامات کرنے کی ہدایت
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • استنبول میراتھون میں پاکستانی ایتھلیٹس کی شاندار کارکردگی، پہلی 3 پوزیشنز پر قبضہ
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • پی ٹی آئی کی پنجاب لوکل گورنمنٹ بل عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاری
  • کس پہ اعتبار کیا؟