پاک فضائیہ، بہترین تیاری،بہترین کارکردگی
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن سے متعدد مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔بھارت کا سب سے پہلا ہدف سندھ طاس معاہدے کو اپنی مرضی کے مطابق ری-نیگو شی ایٹ کروانا ہے۔ بھارت کا یہ بھی خیال تھا کہ اس مس ایڈونچر میں کامیاب ہو کر وہ امریکا کو یہ پیغام دے کہ چائنا Containmentکا حامل ملک ہے بھارت ہے۔
اب بھارت سفارتی محاذ پر بہت سرگرم ہو چکا ہے۔بھارت نے ماضی کے اپنے اچھے سفارت کار ششی تھرور کو امریکا میں لابنگ کے لیے بھیجا ہے۔ششی تھرور بہت اچھا اور بہت روانی سے بولتے ہیں۔انھوں نے امریکا پہنچ کر اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ششی تھرور کانگریسی سیاست دان ہیں لیکن لگتا ہے انھوں نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے مودی جی کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔یوں تو بھارت نے لابنگ کے لیے کئی ایک وفود بھیجے ہیں لیکن بھارت کا دوسرا اہم وفد مشہور بھارتی مسلمان رہنماء اسد اویسی کی سربراہی میں مشرقِ وسطیٰ بھیجا گیا ہے۔
اسد اویسی بھی اچھے مقرر ہیں۔عرب ممالک مسلمان ممالک ہیں اس لیے ان ممالک میں اسد اویسی جیسے کسی مسلمان کا جانا اہم ہے۔پاکستان نے بھی سفارتی اننی شی ایٹو کا اعلان کیا ہے۔وزیرِ اعظم خود تو نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار بھی سرگرم ہیں لیکن ہمارا سفارتی وفد ابھی تک بیرونِ ممالک لابنگ کے لیے نہیں پہنچا۔اطلاعات کے مطابق ایسا ایک وفد جناب بلاول کی سربراہی میں جلد امریکا پہنچے گا۔ جناب بلاول بہت اچھا بولتے ہیں۔ان کے دورے سے بہت سی امیدیں ہیں لیکن وفد کی روانگی میں تاخیر قرینِ مصلحت نہیں ہے۔وقت پر کیا ہوا تھوڑا کام بھی وقت گزرنے کے بعد بہت سے کام سے بہتر نتائج لاتا ہے۔ہمارے دفترِ خارجہ اور سیکیورٹی اداروں کو محنت کر کے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور بھارتی حملے کے ثبوت وفدکے ہاتھ روانہ کرنے چاہئیں۔
اگر ہمارے وفدکے ہاتھ میں بھارتی دہشت گردی اور حملے کے ثبوت ہوں گے تو بات بنے گی۔ ماضی میں ہم اس سلسلے میں بہت سستی دکھاتے رہے ہیں،لیکن وقت آگیا ہے کہ پاکستان بہت پرو ایکٹو ہو۔سفارتی وفود کی بہت اہمیت ہے لیکن میدانِ جنگ میں بھارت کو جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی وجہ سے بھارتی سفارتی وفود کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
ہاں جب وہ بیرونِ ممالک اپنی گفتگو میں بار بار پاکستان کا ذکر کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔بھارت پچھلی تین دہائیوں سے کوشش کرتا رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کا تذکرہ نہ ہو لیکن مودی جی پہلگام آپریشن اور پاکستان پر حملہ کر کے انڈیا پاکستان کو ایک بار ازسرِ نو ہائیفن کرنے کی راہ ہموار کر چکے ہیں اور ابھی بھی بھارت جو اقدامات اُٹھا رہا ہے وہ سب بھارتی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں۔
22اپریل2025کو پہلگام فالس فلگ آپریشن کے فوری بعد بھارت پاکستان پر فضائی حملہ کرنا چاہتا تھا۔بھارت نے اس معرکے کے لیے مسلسل 6سال تیاری کی تھی۔بالاکوٹ میں حملہ کر کے ایک کوا ہلاک کرنے کے بعد جب پاکستان نے اعلانیہ جوابی کارروائی کر کے بھارت کو رسوا کیا تو اس وقت سے بھارت مہم جوئی کے لیے تیاری کر رہا تھا بھارت نے فرانس سے دنیا کا مانا ہوا لڑاکا طیارہ رافیل خریدا۔جولائی 2020 میں پہلا رافیل جہاز بھارت پہنچا ۔اگلے ڈیڑھ سال میں رافیل کے دو سکوارڈن بھارت کو مل گئے۔اس کے ساتھ بھارت نے دنیا کا بہترین روسیS-400میزائل سسٹم خریدا جو دسمبر2022 میں بھارت کو مل گیا۔بھارت نے AWACSبھی اپنی افواج کو مہیا کیے اور ڈیٹا لنکنگ بھی کی۔چھ سالہ بھرپور تیاری کے بعد سمجھا گیا کہ اب پاکستان پر حملہ کر کے اسے زیر کیا جا سکتا ہے۔
27اپریل یعنی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے صرف5دن بعد بھارت نے فضائی حملے کی پہلی کوشش کی۔چار رافیل طیاروں نے حملے کے لیے اڑان بھری لیکن جب رافیل کے پائلٹوں نے پاکستانی شاہینوں کو تیار پایا تو واپس چلے گئے۔ چھ اور سات مئی کی درمیانی شب،آدھی رات گزر جانے کے بعد بھارت نے72لڑاکا طیاروں کے ساتھ شدید حملہ کرنے کی کوشش کی۔پاکستان کی جانب سے42 لڑاکا طیاروں نے بھارتیوں کو للکارا۔دونوں طرف ایک ہی قسم کے ہتھیار استعمال میں تھے،ہاں بھارت کے پاس دنیا کے بہترین لڑاکا طیارے رافیل تھے جن پر پوجا پاٹ کی گئی تھی دونوںافواج کے مابین فرق یہ تھا کہ پاک فضائیہ اپنے تمام Assets کوIntegrateکیے ہوئے تھی۔
رافیل کے پاس بہت اچھا حدِ نگاہ سے دور مار کرنے والا Meteor میزائل تھا جس کی رینج150سے200 کلومیٹر تھی۔ پاکستان کے پاس J-10 چینی طیارے تھے اور ان کی کارکردگی کو ابھی تک ٹیسٹ ہونا تھا۔ان چینی طیاروں پر PL-15 میزائل لگا ہوا تھا جس کی عام طور پر رینج145کلو میٹر ہے لیکن چین نے پاکستان کو وہ میزائل پہنچا دئے جن کی رینج 250سے300کلومیٹر ہے۔پاکستان سائبر اور سپیس وار کی صلاحیت بھی حاصل کر چکا تھا اور چین کے سیٹلائٹ جھرمٹ سے جڑا ہونے کی وجہ سے پورے وار تھیٹر کو نگاہ میں رکھے ہوئے تھا لیکن سب سے بڑا فرقMan behind the gunکا تھا۔پاکستانی شاہینوں کا جذبۂ ایمانی اور ان کی لاجواب تربیت کا ثمر انھیں ملنے والا تھا۔جھڑپ کے دوران پاک فضائیہ کے طیارے بھی لاک ہورہے تھے لیکن ان کے پائلٹوں کی تربیت الحمدﷲ اتنی کمال کی تھی کہ وہ مختلف OBLIQUE,VERTICAL N HORIZONTAL چالوں سے لاک ہونے کے بعد لاک کو بریک کرنے میں کامیاب ہو رہے تھے۔
اﷲ کے کرم سے اسی لاجواب مہارت کے طفیل ایک بھی پاکستانی طیارہ نہیں گرا۔S-400کے خلاف دو پائلٹوں کو مشن سونپا گیا اور کہا گیا کہ یہ مشن اتنا خطرناک ہے کہ شاید وہ واپس نہ آئیں لیکن انھیں شوٹ ڈاؤن ہونے سے پہلےS-400کو تباہ ضرور کرنا ہے۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان شاہینوں نے نہ صرف بہترین روسی میزائل سسٹم کو تباہ کیا بلکہ اپنے طیاروں کو بچا کر بخیریت واپس بھی آ گئے۔ہماری فضائیہ نے سائبر،سپیس،الیکٹرانک اور ڈیٹا لنکنگ میں کمال مہارت دکھائی ہے۔ بھارت نے ڈیٹا لنک16 کا استعمال کیا جب کہ پاکستان نے ڈیٹا لنک 17کو کام میں لا کر برتری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
حکومتِ اور پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ ہماری افواج کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے ہمارے بہادر شاہینوں کو ڈیکوریٹ کیا جائے اور سب سے بڑھ کر پاکستان ایئر فورس کے سربراہ جناب ظہیر بابر سدھو کو بہت زیادہ شاباش دیتے ہوئے Reward کیا جائے، جناب سدھو نے ہی بھارتی فضائیہ کو اندھا کیا اور بھارت کی کمر توڑی۔انھوں نے ہی پاکستان کا پرچم بلند رکھا۔افواج پاکستان کو ہمارا سلام۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں بھارت ہیں لیکن بھارت کو بھارت نے حملہ کر کے بعد کے لیے
پڑھیں:
پاکستان، بھارت کشیدگی کے بعد سرحدی افواج میں کمی پر آمادہ لیکن خطرہ برقرار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مئی 2025ء) پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی کمیٹی کے چیئرمین، جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت رواں ماہ کے دوران ہونے والی شدید عسکری جھڑپوں کے بعد سرحد پر تعینات اپنی اضافی فوج کو بتدریج کم کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ بحران سے مستقبل میں کشیدگی بڑھنے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی مسلح افواج کے اس اعلیٰ عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ دونوں حریف ہمسایہ ممالک اپنی اپنی فوجی پوزیشنوں کو واپس 22 اپریل سے پہلے والی سطح پر لا رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ جھڑپیں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں پہلگام کے مقام پر بائیس اپریل کو سیاحوں پر کیے گئے ایک حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھیں۔
(جاری ہے)
نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا، تاہم اسلام آباد نے اس کی تردید کی تھی۔اس کے بعد سات مئی کو بھارت نے سرحد پار ''دہشت گردی کے ڈھانچے‘‘ پر میزائل حملے کیے، جس کے بعد پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔ دونوں ممالک نے مشترکہ سرحد پر بھاری تعداد میں مسلح دستے بھی تعینات کر دیے تھے۔
جنرل مرزا کا کہنا تھا، ''ہم تقریباً 22 اپریل سے پہلے کی صورتحال پر واپس آ چکے ہیں، یا قریب قریب پہنچ چکے ہیں۔
‘‘ بھارتی وزارت دفاع اور بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے دفتر نے فوری طور پر پاکستانی جنرل مرزا کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔سنگاپور میں جاری شنگریلا ڈائیلاگ فورم میں شریک جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ اگرچہ اس تنازعے میں جوہری ہتھیاروں کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، لیکن خطرہ موجود رہا۔ انہوں نے خبردار کیا، ''جب بحران ہوتا ہے تو ردعمل مختلف ہو سکتا ہے، اور اس وقت کسی بھی اسٹریٹیجک غلطی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
‘‘مرزا نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اس بار جھڑپیں صرف کشمیر تک محدود نہیں رہیں، بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے مرکزی علاقوں میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، حالانکہ کسی بھی فریق نے کسی سنجیدہ نقصان کی تصدیق نہیں کی۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں ماہ ہی خبردار کیا تھا کہ اگر دوبارہ حملہ ہوا تو بھارت پھر سے سرحد پار ''دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘‘ کو نشانہ بنائے گا۔
پاکستان اور بھارت 1947میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں، جن میں سے دو کشمیر کے متنازع خطے پر لڑی گئیں۔ اس کے علاوہ دونوں حریف ممالک کے مابین درجنوں بڑی سرحدی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔جنرل مرزا نے کہا، ''یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ مستقبل میں یہ تنازعہ صرف کشمیر تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ پورے بھارت اور پورے پاکستان پر محیط ہو سکتا ہے۔
‘‘ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس بار امریکہ کی پس پردہ سفارت کاری سے کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملی، اگرچہ بھارت نے کسی تیسرے فریق کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔جنرل مرزا نے خبردار کیا کہ آئندہ کسی بحران میں عالمی برادری کے پاس مداخلت کے لیے بہت کم وقت ہو گا، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بحران کی مؤثر مینجمنٹ کا کوئی نظام موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن بحران سے متعلق ہاٹ لائن کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی باقاعدہ یا غیر رسمی رابطہ نہیں ہو رہا۔جنرل مرزا نے واضح کیا کہ نہ تو کوئی بیک چینل رابطہ ہے اور نہ ہی بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان سے ملاقات کا کوئی منصوبہ ہے، حالانکہ وہ بھی سنگاپور میں ہی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا، ''یہ مسائل صرف بات چیت اور مشاورت سے ہی حل ہو سکتے ہیں، میدان جنگ میں نہیں۔‘‘
شکور رحیم، روئٹرز کے ساتھ
ادارت: مقبول ملک