data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

غزہ /تل ابیب /جنیوا /ماسکو (مانیٹرنگ ڈیسک) عید الاضحی کے پرمسرت موقع پر بھی غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری رہی، جس کے نتیجے میں صرف 24 گھنٹے کے دوران 100 سے زاید فلسطینی شہید اور 393 زخمی ہو گئے۔پیر کو21 فلسطینی شہادتیں ہوئیں۔ اسرائیلی فضائی حملے خاص طور پر جبالیا، بیت لاہیا، غزہ سٹی اور خان یونس میں کیے گئے، جہاں گھروں اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا۔خان یونس کے علاقے المَواسی میں ایک ڈرون حملے نے ان خیموں کو نشانہ بنایا جو اسرائیل نے خود “محفوظ زون” قرار دیا تھا۔ اس حملے میں 2 بچیوں سمیت 5 فلسطینی شہید ہوئے۔ادھر مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فورسز کی چھاپہ مار کارروائیاں جاری رہیں، جن میں عروہ، جلازون، کفر مالک، بلاطہ اور الخضر جیسے شہروں سے کئی فلسطینی گرفتار کیے گئے۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ایندھن کی شدید قلت کے باعث اسپتالوں کو اگلے 48 گھنٹوں میں “قبرستان” بن جانے کا خطرہ ہے۔ڈائریکٹر منیر البورش نے کہا کہ اسرائیلی افواج ایندھن کی رسائی روک رہی ہیں، جس سے جنریٹرز بند اور طبی سہولیات مفلوج ہو چکی ہیں۔اسرائیلی محاصرے کے باعث غزہ کی93 فیصد آبادی شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تقریباً 20 لاکھ افراد فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ امدادی مراکز پر اسرائیلی فائرنگ سے گزشتہ 8 دن میں 100 سے زاید افراد مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح 3 گنا بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتے تک امدادی سامان پر سخت پابندی عاید کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتا ہے تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں‘متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے نئے سربراہ محمد سنوار کی شہادت کے بعد ان کی لاش ملنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ عرب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ محمد سنوار کی لاش یورپی اسپتال کے نیچے بنی سرنگ سے ملی ہے۔ دوسری جانب حماس نے ابھی تک محمد سنوار کی شہادت کی تصدیق نہیں کی ہے جبکہ غزہ کی انتظامیہ یورپی اسپتال کے نیچے سرنگوں کی موجودگی کے اسرائیلی دعوے کی تردید کرچکی ہے۔ اسرائیلی فوج نے عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضا کار گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی کشتی کو غزہ جانے سے روک کر جبری طور پر تحویل میں لے لیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ کشتی اسرائیلی بحری ناکہ بندی کے خطرے کے باوجود غزہ کے بھوک سے موت کے منہ میں جاتے فلسطینیوں کے لیے امدادی اشیا لے کر جا رہی تھی، جس میں چاول اور بچوں کا فارمولا دودھ بھی شامل تھا۔ کشتی پر عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضاکار خاتون گریٹا تھنبرگ سمیت برازیل، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین، سویڈن اور ترکیہ کے شہری سوار تھے۔ فرانس کے انسدادِ دہشت گردی پراسیکیوٹرز نے غزہ میں امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات پر “نسل کشی میں معاونت” اور “نسل کشی پر اکسانے” کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ان الزامات کا تعلق مبینہ طور پر فرانسیسی نژاد اسرائیلی شہریوں سے ہے جنہوں نے گزشتہ سال امدادی ٹرکوں کو غزہ پہنچنے سے روکا تھا۔پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ 2 الگ الگ مقدمات ہیں، جن میں انسانیت کے خلاف جرائم میں ممکنہ معاونت کے الزامات بھی شامل ہیں‘ تحقیقات جنوری تا مئی 2024 کے واقعات پر مرکوز ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ فرانسیسی عدلیہ نے غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی باقاعدہ تفتیش شروع کی ہے۔پہلی شکایت یہودی فرانسیسی یونین برائے امن (یو ایف جے پی) اور ایک فرانسیسی فلسطینی متاثرہ شخص نے دائر کی، جس میں شدت پسند اسرائیلی حمایتی گروپوں “Israel is forever” اور “Tzav-9” کے افراد پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے نیتزانا اور کیرم شالوم بارڈر کراسنگ پر امدادی ٹرکوں کو روکا۔دوسری شکایت “Lawyers for Justice in the Middle East (CAPJO)” نامی وکلا تنظیم نے جمع کروائی، جس میں تصاویر، وڈیوز اور عوامی بیانات کو بطور ثبوت شامل کیا گیا۔اسی روز ایک علیحدہ مقدمہ بھی منظر عام پر آیا، جس میں ایک فرانسیسی دادی نے الزام عاید کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ان کے چھ اور نو سالہ نواسے نواسی کو بمباری میں قتل کیا، جسے انہوں نے “نسل کشی” اور “قتل” قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل نے کے مطابق کیا ہے

پڑھیں:

چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی بحران کی بدترین صورت اختیار کر چکی ہے جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث درجنوں معصوم بچے اور بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غذائی قلت کی صورت حال پچھلے چند ہفتوں کے دوران نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فلسطینی عوام خاص طور پر بچے اور ضعیف افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینے میں صرف چند دنوں کے اندر اندر 29 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں اور ضعیف افراد کی تھی، بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔

یہ المناک اعداد و شمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی رسائی پر شدید اور سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث نہ صرف خوراک، بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہے اور کئی اہم مراکز جن میں شدید متاثرہ بچوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ’’نیوٹریشن کلسٹر‘‘رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مئی کے وسط میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق غزہ میں 5.8 فیصد بچے ایسی حالت میں پائے گئے جو نہ صرف ان کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ فوری طبی مداخلت نہ ہو تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ شرح فروری میں محض 2 فیصد کے لگ بھگ تھی، جب عارضی جنگ بندی کے دوران امداد کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔

اس انسانی بحران کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ امدادی مراکز جو متاثرین کے لیے واحد امید بن چکے تھے، اب نشانہ بننے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی تعاون سے بنائے گئے امدادی مقامات کے قریب فائرنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں امداد کے منتظر شہری شہید ہوئے۔ ان واقعات پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنی ضروریات کے لیے ضبط کرتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ زمینی حقائق اس دعوے کے برخلاف ایک اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، کمزور اور مایوس والدین کی نظریں اور بند اسپتالوں کے دروازے اس بات کے گواہ ہیں کہ امداد کی رسائی کو محدود کرنے کا خمیازہ براہ راست عام فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں۔

شمالی غزہ اور جنوبی رفح جیسے علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں وہ مراکز بند ہو چکے ہیں جو بچوں کی غذائی کمی اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا علاج کرتے تھے۔ ان علاقوں میں شدید قلت کے شکار بچوں کو اب فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں، جس سے اموات کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک الارم ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امدادی راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور خوراک و دوا کی ترسیل کو کسی سیاسی یا عسکری حکمت عملی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بچوں کی زندگیاں کسی بھی تنازع سے بالاتر ہیں، اور اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ
  • نسل کشی یا جنگی جرم؟ فرانسیسی عدالت میں غزہ بمباری پر تاریخی مقدمہ شروع
  • عید کے دوران صرف 24 گھنٹوں میں اسرائیلی بمباری سے 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت ، مزید 108 فلسطینی شہید
  • غزہ : اسرائیل کی بربریت جاری ،وحشیانہ بمباری سے مزید 108 فلسطینی شہید،393 زخمی ، عرب میڈیا
  • غزہ، میں 40 سے زائد فلسطینی شہید، حماس رہنما بھی شہداء میں شامل
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، مزید 36 فلسطینی شہید ہوگئے
  • غزہ میں صیہونی بربریت جاری، مزید 36 فلسطینی شہید، درجنوں زخمی
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت عید پر بھی نہ تھمی، مزید 42 فلسطینی شہید