عمران خان اور بشری بی بی کی القادر ٹرسٹ کیس میں سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت نہ ہوسکی
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 جون ۔2025 )اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی 190 ملین پاﺅنڈ کیس میں سزا معطلی درخواستوں پر سماعت نہ ہونے پر پر پی ٹی آئی راہنماﺅں اور کارکنوں نے ہائی کورٹ کے باہر احتجاج کیا.
(جاری ہے)
سماعت نہ ہونے پر پی ٹی آئی وکلا کی ٹیم، وزیر اعلی خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور، علمیہ خان ، بیرسٹر سلمان صفدر، نیاز اللہ نیازی قائم مقام چیف جسٹس کے سیکرٹری کے آفس میں پہنچ گئے دوسری جانب سماعت نہ ہونے پر پی ٹی آئی راہنماﺅں اور کارکنوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر احتجاج کرنا شروع کر دیا قائم مقام چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ڈویژن بینچ میں آج سزا معطلی درخواستیں مقرر تھیں. ہائی کورٹ کے باہر کارکنان کی جانب سے نعرے بازی کا سلسلہ بھی جاری رہا واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے گزشتہ روز کاز لسٹ جاری کی تھی جس کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد آصف کو آج عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کرنا تھی. عدالت نے نیب کی استدعا پر اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی تعیناتی کے لیے آج تک کی مہلت دی تھی 5 جون کی سماعت نیب کی استدعا پر بغیر کارروائی آگے بڑھے ملتوی ہو گئی تھی 15 مئی کی سماعت میں نیب کو جواب جمع کرانے کے لیے نوٹس جاری ہوا تھا عمران خان اور بشریٰ بی بی نے سزا معطل کرکے ضمانت پر رہائی کی استدعا کر رکھی ہے 17 جنوری کو احتساب عدالت نے عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی. واضح رہے کہ 190 ملین پاﺅنڈز ( القادر ٹرسٹ کیس) میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومت پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاو¿ن سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسلام آباد ہائی کورٹ قائم مقام چیف جسٹس عمران خان اور ہائی کورٹ کے پی ٹی آئی اور بشری
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کمیشن کو معیشت کے تمام شعبوں میں انکوائری اور کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
عدالت کے فیصلے نے ٹیلی کام انڈسٹری کے اس طویل مقدمے کا اختتام کر دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیرِ سماعت تھا۔
تفصیلات کے مطابق جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب سمیت 7 بڑی کمپنیوں نے کمپٹیشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ ٹیلی کام سیکٹر پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے ضابطوں کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے کمپٹیشن کمیشن کو مداخلت کا اختیار حاصل نہیں۔
عدالت نے واضح فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کمیشن کا دائرہ کار معیشت کے تمام شعبوں پر محیط ہے، بشمول ٹیلی کام سیکٹر کے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کی موجودگی کمیشن کے اختیارات کو محدود نہیں کرتی، بلکہ قانون کے مطابق کمیشن کو مارکیٹ میں شفاف مقابلے، منصفانہ پالیسیوں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ مقدمہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کمپٹیشن کمیشن نے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو گمراہ کن مارکیٹنگ کے الزام میں شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔ ان نوٹسز میں کمپنیوں سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ وہ ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ جیسے دعووں کے باوجود صارفین کو محدود سروس فراہم کیوں کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پری پیڈ کارڈز پر ’’سروس مینٹیننس فیس‘‘ کے اضافی چارجز کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا گیا تھا۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء میں ان شوکاز نوٹسز پر اسٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا، جس کے باعث کئی سال تک کمیشن کی کارروائی معطل رہی، تاہم اب عدالت نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ کمپٹیشن کمیشن کو تمام اقتصادی شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے، ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہیں۔