بجٹ بہتر ہے، مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا: میاں ابوذر شاد
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
---فائل فوٹو
لاہور چیمبر نے وفاقی بجٹ پر ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے کہا ہے کہ بجٹ بہتر ہے تاہم اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا، موجودہ بجٹ سے مہنگائی، بے روزگاری میں کمی اور خوشحالی اور ترقی کی رفتار تیز نہیں بنائی جا سکے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر بوجھ ڈالنا مناسب اقدام نہیں۔
بعدازاں بجٹ 26-2025 کے حوالے سے لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ بجٹ بہتر ہے، ابھی اسکا جائزہ لے کر حتمی رائے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کےلیے بجٹ میں اضافہ قابل ستائش ہے۔
میاں ابوذر شاد نے کہا کہ ٹیکسٹائل پراپرٹیم تنخواہ دار طبقے اور سپر ٹیکس میں کمی بہتر اقدامات ہیں لیکن موجودہ بجٹ میں بڑے کاروبار کے لیے مراعات دکھائی نہیں دیں۔
پریس کانفرنس کے دوران پیٹرن انچیف پیاف و سابق صدر فیڈریشن میاں انجم نثار اور سینئر نائب صدر چیمبر لاہور خالد عثمان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے سرمایہ کاری کا ماحول نہیں بنے گا، اس حوالے سے حکمتِ عملی دکھائی نہیں دی، ٹیکسز کے معاملات کو دیکھا نہیں گیا۔
صنعت کاروں اور تاجروں نے بجٹ کی حتمی منظوری سے قبل اسمگلنگ کی مکمل روک تھام، خسارے والے اداروں کی فروخت سمیت دیگر قومی مفاد کے منصوبوں کے اقدمات واضح کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: میاں ابوذر شاد
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔