چائنا کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’’میری نظر میں کرپشن قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے کیونکہ قاتل صرف ایک شخص یا چند افراد کو قتل کرتا ہے لیکن ایک کرپٹ شخص پورے ملک کے معاشی نظام کو کھوکھلا کردیتا ہے اور یہ عمل پورے ملک کو قتل کردینے کے مترادف ہے اور کسی بلند مقام پر فائز ایک طاقتور شخص کو سرے عام سزا دینے عمل ہزاروں افراد کو کرپشن سے باز رکھتا ہے اور یہ عمل ملک کی ترقی اور بقا ء کے لئے بہت ضروری ہے ‘‘
میں جب یہ اقتباس پڑھ رہا تھاتو خبر نشر ہورہی تھی کہ ’’اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے سے بڑھا کر13لاکھ رو پے مقرر کردی گئی ہے ،جبکہ مراعات اس کے علاوہ ہیں اور تنخواہ کا اضافہ موثر بہ ماضی ہوگا اور جنوری سے ادا کیا جائے گا‘‘۔ کیا یہ قومی خزانے پر ڈاکہ نہیں ہے ،اور یہ بدعنوانی کے زمرے میں نہیں آتا ؟ اور یہ سب صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کے حق میں بھی ہوگا اور وہ تنخواہ کے نام پر قومی خزانے پر ڈاکہ ہوگا اور وہ لاکھوں ملازمین جو حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے اور جو مستقبل میں ہوں گے ان کا صریحاً قتل ہے کہ کٹوتیاں ہی کٹوتیاں ہیں جو ان کے مقدر میں لکھی جارہی ہیں اور یہ سب کرپٹ آفیسرز کی بدعنوانی ہی کا شاخسانہ ہے جو اپنے مفادات و مراعات کی خاطر کر رہے ہیں ۔اس کے پیچھے کرپٹ حکمرانوں کی بدعنوانی ہے ۔
صوبائی حکومتیں شاہراہوں کی ترقی کے منصوبوں کے نام پر جو کچھ ہوبرہا ہے وہ بھی محل نظر ہے کہ تقریبا ًہر سڑک بائیں جانب کئی کئی فٹ جگہ چھوڑ دی گئی ہے جس کا زر ٹھیکیداروں اور ان کی وساطت سے حکمرانوں کی جیبوں میں جائے گا ۔یہ کرپشن کتنے بڑے گھروں میں گھی کے دیئے جلائے گی ۔یہ وہ قتل عام ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں نہ عدلیہ کی نہ مقننہ کی ۔ملک کے نام نہاد وزیر اعظم کا اپنی سرکاری رہائش کے لئے 86 کروڑ رکھنا، ان کو بے گھر لوگوں سے کیا واسطہ جو انہیں ووٹ دینا ہی گوارہ نہیں کرتے اور ان سے انتقام کی صورت ہی یہی ہے کہ انہیں بے گھر رکھا جائے اور جن کے پاس چند مرلوں کا بوسیدہ مکان سے اس پر اتنا ٹیکس لگا دیا جائے کہ وہ گھر بیچ کر خیمہ بستیوں کے باسی جا بنیں ۔
کتنی ہمدرد حکومت ہے کہ عوام پر پانچ فیصد سک ٹیکس لگانے کی اجازت آئی ایم ایف سے مانگتی ہے اور اپنے عشرت کدوں کی رونق اور اپنے فارم 47کے رفقا کی غربت مٹانے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں رکھتی اور آئی ایم ایف کی بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اس بارے کوئی سوال نہیں کرتی، زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترستی عوام پر نئے بجٹ میں دو ہزار ارب کے لگ بھگ ٹیکس لگا دیا ہے انسانی ہمدردی کی کسی تنظیم نے اُف تک نہیں کی اور ہمارے سیاستکاروں نےاف تک نہیں کی ،رہے عوام وہ سڑکوں پر کیسے آئیں کہ پیٹ پر بندھے پتھر انہیں چلنے ہی نہیں دیتے۔
دوزخ کی آگ جیسی حدت میں عام آدمی پنکھا اس لئے نہیں چلاتا کہ بجلی کا بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور ایوانوں میں قہقہے لگاتے کار کنوں کو مفت بجلی اور دیگرسہولیات زندگی، یہ سب کیا ہے ۔دفاتر کے ملازمین کے منہ میں بجٹ سے استفادے کی فقط چوسنیاں اور اراکین اسمبلی کو تاحیات پنشن کی سہولت ،کتنی کس حساب سے کس گریڈ کے تحت اس کا کوئی علم نہیں ،یہ ہے شریفوں کی حکومت اور یہ شریف نہ ہوتے تو قوم کا کیا بنتا حکمرا نی کے یہ طور طریقے نہ جانے اور کیا رنگ لائیں گے ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟
حکمرانوں کی اس دیدہ لیری کے ساتھ کی جانے والی واردات پرعدلیہ چپ ہے کہ اسے اپنی مراعات کے چھن جانے کا خوف ہے،اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفادات،ارکان اسمبلی کو عوام سے کیا غرض کہ وہ تو فارم 47 کی معجزہ نمائی ٹھہرے ، رہی مقتدرہ اسے چائنا کے چیف جسٹس کے قواعد و ضوابط اور اقوال سے کیا واسطہ کہ ہماری مقتدرہ کواس کی دفاعی کمک سے تعلق ہوتا ہے یوں بھی شریفوں کی شرافت کا بھرم ہے ان بے چاروں کا کیا کہ یہ عوام کے سامنے سے ویسے ہی منہ چھپا کر گزرتے ہیں ، مقتدرہ کی مہربانی ہے کہ اس نے شریفوں کو اس اوج ثریا پر لا کھڑا کیا ہے کہ ان کا اگلا مقام تحت الثری ہی ہوگا۔ان شااللہ۔اس لئے پوری قوم مقتدرہ کی عزت اور احترام کرتی ہے ۔ہم بھی مقتدرہ کے دل و جان سے ممنون ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
وفاقی بجٹ 2025-26ء آئی ایم ایف کا دیا ہوا کاغذ لگ رہا ہے، علامہ باقر زیدی
ایک بیان میں رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں لوکل انڈسٹریز کو آگئے بڑھانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے، موجودہ بجٹ میں عوام پر لگائے جانے والے ٹیکسز اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستان پر مسلط حکمران پاکستانی عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صوبائی صدر علامہ باقر عباس زیدی نے کہا ہے کہ حالیہ بجٹ اعداد و شمار کی ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں، ایسا لگتا بجٹ 2025-26ء عجلت میں بنایا گیا ہے بلکہ آئی ایم ایف کا دیا ہوا کاغذ لگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کا بجٹ اس کے عوام کی معاشی ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں بجٹ کا لفظ عوام کو پہنچائی جانے والی اذیت کا مترادف بن چکا ہے، موجودہ بجٹ میں مستقبل کی ملکی معاشی پالیسیوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا ہے، حکومتی اداروں کے اخراجات میں دگنا اضافہ ملکی عوام سے خیانت ہے، وفاقی بجٹ میں صحت اور تعلیم کے شعبے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ میں مختص کی جانے والی انتہائی کم رقم پاکستان کے مستقبل کے بارے حکومت کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہے، پاکستان ایک زرخیز ملک ہے لیکن زراعت کے میدان میں حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث بھرپور استفادہ کرنے سے قاصر رہے ہیں، حکومت کی ناکام تجارتی پالیسیوں اور وطن عزیز میں عدم استحکام کی صورتحال نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور غیر ملکی قرضوں میں مذید اضافہ ہوا، موجودہ حکومت نئی صنعتوں کے قیام میں بُری طرح ناکام رہی، موجودہ حکومت کو ملکی معاشی استحکام سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر ہے، بجٹ میں عوامی ریلیف کے بجائے مذید ٹیکس کا بوج ڈال کر عوام بالخصوص تنخواہ دار طبقے کا معاشی قتل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ تنخواہ دار ملازمین سمیت عوام پر مشکلات کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں لوکل انڈسٹریز کو آگئے بڑھانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے، موجودہ بجٹ میں عوام پر لگائے جانے والے ٹیکسز اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستان پر مسلط حکمران پاکستانی عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں، حکمرانوں کے غیر دانش مندانہ اور حکمت سے عاری فیصلے ان کی انتظامی نااہلی کی دلیل ہیں، نا اہل حکومت اپنا خسارہ پورے کرنے کے لئے عوام کا خون چوس کر ہی دم لے گی، موجودہ حکومتی بجٹ 2025-26ء کو مسترد کرتے ہیں۔