ایران اسرائیل کشیدگی، فیلڈ مارشل کا دورۂ امریکا مزید اہمیت اختیار کرگیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کے بعد فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ امریکا مزید اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سرکاری دورے پر امریکا میں ہیں، اُن کا واشنگٹن کا یہ دورہ جو کئی ماہ پہلے سے طے تھا اب جغرافیائی طور پر انتہائی اہم وقت پر ہو رہا ہے۔
واشنگٹن میں فیلڈ مارشل کی موجودگی کے دوران مشرق وسطی کی نئی پیشرفت اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر بلاجواز جارحیت نے خطے اور دنیا کے امن کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
اس تناظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ واشنگٹن مزید اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی واشنگٹن میں موجودگی ایک موقع ہے کہ وہ خطے کے اہم معاملات، جیسے اسرائیلی جارحیت اور اس کے خطے پر ممکنہ اثرات، کو براہِ راست امریکی قیادت کے ساتھ زیرِ بحث لائیں۔
اس وقت واشنگٹن میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی موجودگی نہ صرف پاکستان کے دفاعی اور تزویراتی مفادات کے لیے اہم ہے بلکہ یہ عالم اسلام کے خدشات اور تحفظات کو مؤثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا بھی ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔
ایران کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی کے نتائج خطے کے امن و استحکام پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، اور پاکستان کی طرف سے ایک متوازن اور دانشمندانہ موقف پیش کرنا بین الاقوامی برادری کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
اس لحاظ سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کہ یہ موجودگی سفارتی انٹرفیس کے طور پر بھی کام کر رہی ہے، جو امریکا اور مسلم دنیا کے درمیان بات چیت کی نئی راہیں کھول سکتی ہیں۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے حالیہ دورے جن میں سعودی عرب، چین اور اب امریکا شامل ہیں اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف ایک فوجی کمانڈر کے طور پر بلکہ ایک مؤثر سفارتی شخصیت کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
ان دوروں کا مقصد خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے، خاص طور پر انسدادِ دہشت گردی کے میدان میں پاکستان کے تجربے، قربانیوں اور کامیابیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی کوششوں سے پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر بین الاقوامی سطح پر اپنے امیج کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ان کے ان دوروں سے نہ صرف دو طرفہ دفاعی تعلقات کو مضبوط کیا ہے بلکہ دہشت گردی، سرحدی سلامتی اور خطے میں ابھرتے ہوئے چیلنجز پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی راہ بھی ہموار کی ہے۔
عالمی طاقتوں اور علاقائی ہمسایوں سے بات چیت کے یہ اقدامات پاکستان کو ایک پُرامن اور بااعتماد شراکت دار کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو نہ صرف اپنے قومی مفادات کا دفاع کر رہا ہے بلکہ پورے خطے میں امن کی کوششوں کا بھی سرخیل ہے۔
پاکستانی مسلح افواج کے انسداد دہشت گردی کیخلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر امریکا پاک فوج کا معترف ہے اور اکثر اس حوالے سے تہنیتی بیانات بھی سامنے آتے ہیں جن میں قریب ترین مثال امریکی سینٹرل کمانڈ جنرل کوریلا کا سینیٹ کی دفاعی کمیٹی میں دیا گیا بیان اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی انسداد دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کی تعریف کرنا سب سے بڑی مثال ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر عاصم منیر کی کے طور پر
پڑھیں:
جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران
تہران (ویب دیسک )ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا،کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا، ایرانی وزیر خارجہ۔امریکا سے مذاکرات میں دلچسپی نہ جوہری پابندی قبول کریں گے؛۔ایران نے امریکا کے ساتھ ممکنہ مذاکرات اور جوہری پروگرام سے متعلق واضح پالیسی بیان جاری کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں البتہ بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔الجزیرہ کو دیئے گئے انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ ہم ایک منصفانہ معاہدے کے لیے تیار ہیں لیکن امریکا نے ایسی شرائط پیش کی ہیں جو ناقابلِ قبول اور ناممکن ہیں۔انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اپنے جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا۔ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جو کام جنگ کے ذریعے ممکن نہیں وہ سیاست کے ذریعے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مخالفین کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یورینیم افزودگی نہیں روکیں گے۔عباس عراقچی نے مزید کہا کہ جون میں اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے باوجود جوہری تنصیبات میں موجود مواد تباہ نہیں ہوا اور ٹیکنالوجی اب بھی برقرار ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری مواد ملبے کے نیچے ہی موجود ہے، اسے کہیں اور منتقل نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کے کسی بھی جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔