اہل ایران، دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مشہور قانون دان جناب سجاد حمید یوسفزئی نے لکھا ہے: "کافر کافر شیعہ کافر" کا نعرہ ہمارے سنیوں نے بہت لگایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت کے سب سے بڑے سامراج اور اسلام دشمن ممالک، امریکہ و اسرائیل کے خلاف اگر کوئی ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف شیعہ ریاست ایران کھڑا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ غزہ کی خاطر اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی خاطر بھی اسوقت یہی شیعہ ریاست کھڑی ہے۔ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، مگر سامراج کے سامنے نہیں جھکا۔ دوسری طرف تمام ممالک وقت کے سامراج کے سامنے سجدہ ریز ہیں، اسکے بعد شیعہ کافر کا نعرہ پتہ نہیں کس منہ سے لگائیں گے۔" تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ابتدائے کائنات سے دنیا میں یہ اصول حاکم ہے کہ طاقتور ترین باقی رہے گا۔ اس دنیا میں طاقتور کے لیے کوئی ضابطہ، کوئی قانون اور کوئی اخلاق نہیں ہے۔ وہی مغرب جو جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی پر ممالک پر پابندیوں کی دھمکیاں دیتا ہے، غزہ میں کئی ہزار بچوں کی شہادت پر بھی صرف خاموش نہیں رہا بلکہ ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ پاک بھارت جنگ میں صرف ایک ماہ پہلے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امن صرف طاقت سے ہے۔ ایک دن پہلے امریکی نائب صدر کہہ رہا تھا کہ ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں اور جب پاکستان نے چھ طیاروں کو مار گرایا اور دلی تک پاکستانی ڈرونز اور میزائل پہنچنے لگے تو جنگ کی تپش محسوس ہوئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی بھاگے بھاگے آئے اور جنگ بندی ہوگئی۔ نریندر مودی بقول بلاول بھٹو زرداری ایک طرح سے نیتن یاہو کا ٹیمو ورژن یعنی دو نمبر کاپی ہے۔ اسے بھی صرف طاقت کی زبان سمجھ میں آتی ہے، اسرائیل بھی فقط طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔
حامد میر نےبڑا زبردست لکھا ہے کہ مشہور ماہر امور مشرق وسطیٰ رابرٹ فسک کہا کرتے تھے کہ نیتن یاہو عراق کی طرح ایران پر بھی حملہ کروائے گا اور امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹ لے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جنگی حکمت عملی بڑی زبردست ہے۔ ابھی تک خبردار کیا گیا، مگر کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا گیا، جس سے امریکہ میں اسرائیلی لابی کو امریکہ کو جنگ میں پھینکنے کا موقع مل جائے۔ آج جب آپ کے میزائل تل ابیت اور حیفہ میں تباہی مچا رہے ہیں تو آپ کا درد دنیا کو محسوس ہو رہا ہے۔ اب سویلینز کے حقوق، عام عمارتیں، سول انفراسٹکچر سب کچھ یاد آرہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ غزہ میں برباد نہیں کیا گیا؟ اس کو تو چھوڑیں، وہاں تو ہسپتال تک ملبے کا ڈھیر بنا دیئے گئے۔ دنیا اس وقت آپ پر حملہ کرتی ہے، جب اسے یقین ہوتا ہے کہ آپ کمزور ہیں۔ پہلے دن کے حملوں کے بعد پاکستان کا پورا سوشل میڈیا یہ سوال اٹھا رہا تھا کہ ایران اتنا کمزور ملک ہے۔؟
کچھ احمق تو یہاں بھی کوئی کٹھ پتلی حکومت دیکھ رہے تھے۔ جب محض بیس گھنٹوں کے بعد ہی اللہ کے لشکر کی مار اسرائیل پر پڑنے لگی تو سب اسے فخر سے شیئر کرنے لگے۔ آج پاکستان کی رائے عامہ سو فیصد اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں ہوچکی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف فرقہ پرستوں، امریکی اور اسرائیلی لابی کے پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ایک تحریر سوشل میڈیا پر بڑی مشہور ہو ہوئی ہے، بلامبالغہ اسے کئی لاکھ لوگوں نے پڑھا اور اس کے پاکستانی سماج پر اثرات ہوئے۔ یہ تحریر ڈاکٹر اسرار صاحب کی تنظیم اسلامی کے سربراہ جناب خالد محمود عباسی صاحب کی ہے۔ لکھتے ہیں: حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں جہاں تل ابیب اور اصفہان میں کئی فلک بوس عمارات تباہ ہوئیں، وہیں ہمارے بزرگوں کی تعمیر کردہ ایک عمارت بھی تباہ ہوئی ہے۔
یہ تاریخی عمارت 80 اور 90 کے عشروں میں ہمارے خالی ذہنوں میں تعمیر کی گئی کہ ایران اسرائیل اندر سے بھائی بھائی ہیں اور محض سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایک دوسرے کو للکارتے ریتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان اس عمارت کے گرنے سے ہوا ہے۔ کیونکہ اب ایسی بہت سی عمارتوں کو مخدوش قرار دیا جا سکتا ہے، جو اس بڑی عمارت کے آس پاس واقع ہیں اور لاکھوں سادہ لوح مسلمان وہاں اب بھی بال بچوں سمیت رہائش پذیر ہیں۔ ہمیں یا تو یہ مخدوش عمارتیں خالی کرنی ہوں گی یا راتوں رات جھوٹ کی ایک نئی عمارت کھڑی کرنی ہوگی جو "ایران اسرائیل بھائی بھائی" سے بھی اونچی ہو۔ اتنی اونچی کہ دیکھنے والوں کی ٹوپیاں گر جائیں۔
دنیا میں طاقتور کی بات سنی جاتی ہے اور اسی کی بات مانی جاتی ہے، دلیل و منطق سے چلنے والے طاقت سے خالی ہوں تو ان کی آواز ہوا میں ہی تحلیل ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ زیٹو کے بانی مشہور امریکن تجزیہ نگار مہدی حسن نے درست سوال اٹھایا ہے کہ آپ مغربی میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں، رپورٹنگ ایسے ہو رہی ہے جیسے ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے اور اسرائیل اس کا وکٹم ہے، حالانکہ حملہ اسرائیل نے کیا ہے اور وکٹم ایران ہے، جسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ دوسرا ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اور ایران نے این پی ٹی پر سائن بھی کیے ہیں، اس کے مقابل اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں اور اس نے این پی ٹی پر دستخط بھی نہیں کیے۔ میڈیا میں آپ کو ایسے نظر آئے گا، جیسے ایران ایٹمی پاور ہے اور اسرائیل کو خطرہ پڑا ہوا ہے۔ یہ طاقت ہی ہے کہ ٹرمپ پچھلے چند گھنٹوں میں تین بار ایران اسرائیل جنگ بندی پر زور دے چکا ہے۔
راشد خان نے خوب لکھا ہے۔ ایرانیوں کی اپنی تہذیب سے مضبوط تعلق کی عمر پانچ میلینیم سال ہے، یہ تعلق اسے جُداگانہ شناخت کا قابل فخر احساس دیتا ہے، جبکہ واقعہ کربلا سے یہ قوم بے مثال قربانی کا جذبہ حاصل کرتی ہے۔ اسی وجہ سے جیسے جیسے اسرائیلی حملے بڑھ رہے ہیں، اہل ایران متحد ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے مقابل اسرائیل پر ہونے والا ہر حملہ وہاں انتشار پیدا کر رہا ہے، کیونکہ اسرائیل بہت چھوٹا ملک ہے۔ کوئی غیر ملکی اسرائیل میں اس لیے نہیں آیا کہ اس کی جان کو کوئی خطرہ ہو۔ ایران جو تقریباً 16 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ایک وسیع اور عریض ملک ہے، یہ حملوں کی شدت کو جغرافیائی پھیلاؤ کے باعث سہنے کی طاقت رکھتا ہے اور دشمن کے وار کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل جس کا کل رقبہ محض 22 ہزار مربع کلومیٹر ہے، ہر حملے پر فوری طور پر دباؤ محسوس کرتا ہے۔ وہاں کے شہروں، عسکری تنصیبات اور بنیادی انفراسٹرکچر پر ہونے والا کوئی بھی حملہ نہ صرف زمینی حقائق کو بدل دیتا ہے بلکہ نفسیاتی لحاظ سے بھی گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
وطن عزیز میں لوگ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کھڑے ہیں، وہیں وحدت امت کی راہیں پیدا ہو رہی ہیں اور غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں۔ مشہور قانون دان جناب سجاد حمید یوسفزئی نے لکھا ہے: "کافر کافر شیعہ کافر" کا نعرہ ہمارے سنیوں نے بہت لگایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت کے سب سے بڑے سامراج اور اسلام دشمن ممالک، امریکہ و اسرائیل کے خلاف اگر کوئی ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف شیعہ ریاست ایران کھڑا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ غزہ کی خاطر اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی خاطر بھی اس وقت یہی شیعہ ریاست کھڑی ہے۔ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، مگر سامراج کے سامنے نہیں جھکا۔ دوسری طرف تمام ممالک وقت کے سامراج کے سامنے سجدہ ریز ہیں، اس کے بعد شیعہ کافر کا نعرہ پتہ نہیں کس منہ سے لگائیں گے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران سامراج کے سامنے ایران اسرائیل شیعہ ریاست شیعہ کافر ہے اور اس ایران کے کا نعرہ کی خاطر ہیں اور لکھا ہے وقت کے ہوا ہے کے بعد سب کچھ رہا ہے
پڑھیں:
ایک عسکری سبق جو اسرائیل نہ بھول پائے گا
جب بھی دنیا میں ظلم کی رات طویل ہو جائے تو وہی ظلم اپنے انجام کو خود دعوت دینے لگتا ہے۔ اسرائیل نے جب ایران کے خلاف کھلے عام جارحیت کا آغاز کیا تو شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ جس آگ کو شعلہ دے رہا ہے وہ صرف تہران میں نہیں جلے گی بلکہ تل ابیب،حیفہ اور اشدود تک ہر اینٹ کو جھلسا دے گی۔ جمعہ کی صبح اسرائیلی فضائیہ نے ایران کی عسکری و جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے خطے میں ایک نئی اور خطرناک جنگ کا آغاز کیا۔ مگر تاریخ کا یہ سبق اسرائیل ہمیشہ نظرانداز کرتا آیا ہے کہ ظلم کے ہر وار کا ایک انتقام ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ انتقام بیک وقت صبر، حکمت اور آتش و آہن کی آمیزش بن کر برسنے لگتا ہے۔ایرانی سرزمین پر ہونے والے ان حملوں میں صرف عمارات نہیں گریں بلکہ ایران کی فوجی قیادت کے کئی ستون بھی شہید ہوئے۔ جنرل حسین سلامی، جنرل باقری اور جنرل غلام علی راشد جیسے جری سپہ سالاروں کا خون اسرائیلی میزائلوں سے بہا۔ چھ سائنسدانوں سمیت درجنوں ایرانی اہلکاروں کی شہادت نے ایرانی قوم کے دل کو زخمی ضرور کیا لیکن اس دل کے زخم نے جو چنگاری پیدا کی اس نے ایک ہی رات میں تل ابیب کے شیش محل کو خاکستر کر دیا۔ایران نے آپریشن وعدہ صادق سوم کے تحت اپنی عسکری تاریخ کی سب سے بڑی جوابی کارروائی کا آغاز کیا۔ چار مرحلوں میں دو سو سے زائد بیلسٹک اور کروز میزائل تہران سے نکل کر اسرائیلی شہروں پر آسمانی بجلی کی طرح گرے۔ ایک لمحے کو وہ منظر دنیا نے دیکھا جب تل ابیب کی آسمان چھوتی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں اور ہر وہ شخص جو برسوں سے فلسطینی خون کے دریا پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا، اس لمحے گم صم رہ گیا۔
اسرائیلی میڈیا جو ہمیشہ اپنی برتری کے گن گاتا ہے اس بار چار اسرائیلی ہلاکتوں اور ساٹھ سے زائد زخمیوں کی تصدیق پر ہی اکتفا کرتا نظر آیا کیونکہ اصلی نقصان اس سے کہیں زیادہ تھا جسے وہ تسلیم کر سکے۔ حملے صرف جسمانی نہیں تھے یہ حملے اس غرور پر تھے جو اسرائیل نے اپنی ناقابلِ شکست ہونے کی جھوٹی داستانوں سے پال رکھا تھا۔اسرائیل جو ہمیشہ اپنی ٹیکنالوجی، سائبر وارفیئر، اور جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹمز پر فخر کرتا رہا ہے، اس بار ایران کے طوفانی حملوں کے سامنے بے بس نظر آیا۔ آئرن ڈوم، ایرو اور ڈیوڈ سلنگ جیسے سسٹمز جنہیں ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا ایران کے بیلسٹک اور سپرسانک میزائلوں کے سامنے ایک کھوکھلا دعوی ثابت ہوئے۔ ایران نے نہ صرف اسرائیلی ایئر ڈیفنس کی تہیں چاک کیں بلکہ تل ابیب جیسے محفوظ سمجھے جانے والے شہر کو ہدف بنا کر دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ اب اسرائیلی بالا دستی محض ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ جو ملک دوسروں کی سرزمین پر قبضہ کر کے ٹیکنالوجی کے زعم میں خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا وہ چند گھنٹوں میں بے بسی کی تصویر بن گیا۔
ایران نے نہ صرف اپنے شہیدوں کا بدلہ لیا بلکہ اسرائیل کو عسکری میدان میں وہ سبق سکھایا جسے وہ آنے والی دہائیوں تک نہ بھول سکے گا۔ یہ حملے صرف ہتھیاروں کی برتری نہیں بلکہ حکمتِ عملی، جذبے اور غیرتِ قومی کی فتح تھی۔ اسرائیلی فوج جو دنیا کی تربیت یافتہ اور جدید ترین افواج میں شمار ہوتی ہے ان میزائل حملوں کے بعد دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہو گئی۔ ایران نے عالمی منظرنامے پر یہ اعلان کر دیا کہ اگر تم ہماری سرزمین پر آئو گے تو ہم تمہارے دل میں گھس کر جواب دیں گے۔ یہ صرف جنگی ردعمل نہیں بلکہ مسلم دنیا کے لیے ایک پیغام بھی تھا کہ اگر اتحاد ہو، عزم ہو اور قربانی کا جذبہ ہو تو ظلم کی سب دیواریں گرائی جا سکتی ہیں۔
اگر ہم اسرائیل اور ایران کی عسکری قوت کا موازنہ کریں تو گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق اسرائیل دنیا میں 15ویں جبکہ ایران 16ویں نمبر پر ہے۔ بظاہر اسرائیل کا سالانہ دفاعی بجٹ 27 ارب ڈالر ہے جب کہ ایران صرف 10 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے مگر عسکری معرکے صرف اعداد و شمار سے نہیں جیتے جاتے۔ میدانِ جنگ میں جذبہ، عزم، قربانی اور ٹیکنالوجی کا امتزاج فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ایران کے پاس 6 لاکھ 10 ہزار فعال فوجی ہیں جن میں پاسدارانِ انقلاب کے 1 لاکھ 90 ہزار گارڈز بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیل کی حاضر سروس فوج محض 1 لاکھ 70 ہزار پر مشتمل ہے۔ تاہم اسرائیل اپنی فضائیہ کو سب سے بڑی قوت سمجھتا ہے۔ 340 فائٹر جیٹ، جن میں ایف-35، ایف-16 اور ایف-15 جیسے جدید طیارے شامل ہیں اسرائیل کو فضائی برتری ضرور دیتے ہیں مگر ایران نے اپنی فضائی کمزوری کو میزائل پروگرام کے ذریعے نہ صرف پورا کیا بلکہ اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کر کے اسے عملی طور پر آزما بھی دیا۔
ایران کے پاس شہاب، قدر، ذوالفقار، سومار، عماد اور ہائپر سونک الفتح جیسے بیلسٹک اور کروز میزائل موجود ہیں جن کی رینج 300 کلومیٹر سے لے کر 2500 کلومیٹر تک ہے۔ یہی نہیں ایران کے ڈرونز نے اسرائیلی دفاعی نظام میں وہ خلا پیدا کیا ہے جسے دنیا کی کوئی آئرن ڈوم مکمل طور پر بند نہیں کر سکی۔ شہید 129 اور شہید 136 جیسے ڈرونز اسرائیلی رڈار سسٹم کو چکما دینے میں کامیاب رہے جبکہ اسرائیل کے ہیرون اور ہیروپ ڈرونز صرف روایتی ردعمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان 2152 کلومیٹر کا فاصلہ باوجود اس کے ایران نے گزشتہ برس بھی اسرائیل پر کامیاب حملے کیے تھے اور اب کی بار تو انہوں نے اپنا پیغام مکمل طور پر واضح کر دیا ہے۔ اسرائیلی دفاعی نظام چاہے تین سطحوں پر مشتمل ہو ۔ ایرو، ڈیوڈ سلنگ، اور آئرن ڈوم مگر ایران کے میزائلوں نے ان تمام پرتوں کو چیر کر رکھا دیا ہے۔
جہاں ایران کا فخر اس کی بیلسٹک طاقت ہے وہاں اسرائیل دنیا کی پانچ بڑی سائبر جنگی طاقتوں میں شامل ہے۔ اسرائیلی سائبر فورسز ڈرونز ہائی جیک کرنے، GPS جام کرنے اور دشمن کے مواصلاتی نظام کو ناکارہ بنانے میں مہارت رکھتی ہیں مگر ایران نے اس میدان میں بھی خاموشی سے اپنی موجودگی کا لوہا منوایا ہے۔ اگرچہ ابھی ایران سائبر صلاحیتوں میں اسرائیل سے پیچھے ہے مگر جنگ میں یکطرفہ صلاحیتیں ہمیشہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں۔
ایرانی بحریہ بھی اس جنگ میں کسی طور کمزور نہیں۔ ایران کے پاس 17 ٹیکنیکل آبدوزیں اور 68 جنگی بحری جہاز ہیں، جبکہ اسرائیل کے پاس پانچ آبدوزیں اور 49 بحری جہاز ہیں۔ سمندر میں بھی ایران اب اسرائیلی مفادات کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے خاص طور پر خلیج عمان اور بحیرہ احمر کے راستوں میں۔ان تمام حقائق کے بعد ایک بات بالکل عیاں ہے اسرائیل اب اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کے غرور کو سنگین ضرب لگی ہے۔ اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر جتنا ظلم وہ برسوں سے کرتا آیا ہے، وہ اب صرف کیمرے کی آنکھ سے رپورٹ نہیں ہوگا بلکہ میزائل کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔
تل ابیب کے ملبے تلے صرف اینٹیں نہیں گریں ایک پوری سوچ، ایک پوری برتری کا تصور، اور وہ سارا غرور دفن ہوا ہے جو اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کے بل پر پالا تھا۔ ایران نے بتا دیا ہے کہ مظلوم اگر جاگ جائے تو اس کے قدموں کی دھمک سے سامراجی ایوان لرزنے لگتے ہیں۔اور اب وقت آن پہنچا ہے کہ دنیا اسرائیل کی اصلیت کو سمجھے ۔ وہ ملک جو نسل کشی، قبضے اور مذہبی جنون پر قائم ہے اب زوال کی راہوں پر گامزن ہو چکا ہے۔ فلسطین کی صبح قریب ہے اور مسجد اقصی کی اذانیں ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کے ضمیر کو جگائیں گی۔کیونکہ اب ظلم کی رات ڈھل چکی ہے، اور باری اسرائیل کی تباہی کی ہے۔