’اسرائیل اہم ایرانی شخصیات کے قتل کیلئے موبائل فون ٹریکنگ ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے‘
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسرائیل ایرانی فوجی اور جوہری قیادت کی اہم شخصیات کے قتل کی وارداتوں کے لیے موبائل فون ٹریکنگ ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے۔
برطانوی اخبار دی ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل ایران میں اہم افراد کو قتل کرنے کے لیے موبائل ٹریکنگ استعمال کرتا ہے، صہیونی ایجنسیوں نے پہلے اسی طریقے سے تہران میں اسمعٰیل ہنیہ کو قتل کیا تھا۔
ایرانی فوج کے زیرانتظام فارس نیوز ایجنسی نے پیر کو رپورٹ کیا کہ حماس کے سابق سیاسی رہنما اسمعٰیل ہنیہ کو جولائی 2024 میں تہران میں اسی طرح کی ایک واردات میں شہید کیا گیا تھا، جس کا الزام وسیع پیمانے پر اسرائیل پر عائد کیا گیا تھا۔
ایران کے پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اگرچہ موبائل فون بند بھی ہوں، تب بھی وہ افراد کی موجودگی ظاہر کر سکتے ہیں۔
یہ بیان تہران کے اندر سیاسی اور حکومتی عہدیداروں سے موبائل فونز کے استعمال سے باز رہنے کی اپیلوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
طاقت پر مبنی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی
ہماری سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی کی بجائے طاقت کے انداز میں ہی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔جب ان کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ ملا کر ،بات چیت اور انھیں ساتھ جوڑ کر ان کو مسائل کے حل میں شریک کرنا ہوگا۔لیکن وہ طاقت کو ہی اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔اس حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کا نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے، حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے مگر اس کے باوجو ہم نظام کی غلطیاں درست کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
اصولی طورپر کسی مسلے کو حل کرنے کے لیے طاقت آخری آپشن کے طورپر استعمال کی جاتی ہے ، اس سے پہلے وہ تمام آپشن اختیار کیے جاتے ہیں جن کی نوعیت سیاسی ہوتی ہے۔لیکن ہم سیاسی حکمت عملی کو ابتدائی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے فوری طورپر طاقت کے استعمال کی جانب جاتے ہیں ، اس کاایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی سیاسی قیادت میں جہاں قبولیت کم ہوتی ہے وہیں یہ لوگوں میں منفی ردعمل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہم قومی سیاست سے جڑے مسائل کوسیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔اول یا تو موثر سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے یا اس کی ملکیت کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔دوئم ہم سمجھتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے اور ہمیں ان کا علاج ہی طاقت کے استعمال سے کرنا ہوگا۔
عمومی طورپرہمیں اپنے قومی مسائل کے حل کے لیے سیاسی فورمز اختیار کرنے چاہیے تھے اور مکالمہ کی مدد سے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے تھا جس میں داخلی سفارت کاری کو ہر سطح پر ترجیح ملنی چاہیے تھی۔
اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں جو حالات ہیں، ان صوبوں کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔دوسری طرف دہشت گردی کا ماحول بھی ان دونوں صوبوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ریاستی سطح پر سنگین نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں ۔دوسری جانب جو سیاسی عدم استحکام ہے اس نے بھی ہمارے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔بہت سے لوگوں خیبر پختون خواہ یا بلوچستان میں دہشت گردی اور قومی سطح پر سیاسی تقسیم کے خاتمہ میں سیاسی فریقین سے بات چیت کے حامی ہیں کیونکہ سیاسی لوگ نظام پر یقین رکھتے ہیں۔
ان سے بات چیت کے دروازوں کو کھولا جائے اور ان لوگوں کی آوازوں کو سنا جائے ۔کیونکہ جب ہم بات چیت کے تمام دروازے بند کردیں گے تو پھر انتہا پسندی رجحانات کا پیدا ہونا فطری امر ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی سیاسی اور جمہوری روش کمزور اور مسائل کے حل کے لیے سب ہی طاقت کے استعمال کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ جو جنگی ہتھیاروں پر مبنی ڈپلومیسی ہے اس نے دنیا کی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے ۔یہ ہی کچھ ہمیں پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اس کا نتیجہ جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کررہا ہے وہیں ریاستی سطح پر ہمیں عدم سیکیورٹی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہماری ان داخلی سطح کی کمزوریوں کا فائدہ دشمن اٹھارہا ہے اور ہم ایک مضبوط ریاست کے طور پر ناکامی سے دوچار ہیں۔ ریاست میں موجود لوگ یا مختلف سیاسی یا غیر سیاسی گروہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کسی بھی سطح پر ہماری بات یا ہمارے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس کا نتیجہ ریاست پر عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو خود ریاست کے لیے کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر ہم نے ریاست کی بات تسلیم نہ کی یا حکومت کی پالیسیوں کو نظر انداز کرکے اپنی بات کرنے کی کوشش کی تو ہمیں ریاست کی طرف سے سخت مزاحمت سمیت طاقت کے استعمال کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی طور پر اچھے رجحان کی عکاسی نہیں کرتا۔ایسے لگتا ہے ہماری ریاست سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی حکمت عملیوں کی اہمیت سے دور ہوتی جا رہی اور سیاسی و جمہوری سپیس بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
جب حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے بن جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کے لیے بھی ریاست کے نظام کے اندر اندھی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی کلچر پرتشدد اور انتہا پسند رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سب کو لگتا ہے ہمیں بھی ہر سطح پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہی کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔کیونکہ آج بھی دنیا میں بیانیہ کی جنگ ہے اور اس میں ہم کو سفارت کاری کی سیاست مضبوط بنیادوںپر نظر آتی ہے توا س کا مطلب ہے کہ پرامن سیاسی اور جمہوری حکمت عملی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم سیاسی حکمت عملیوں کو ہی اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں ۔
حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ پچھلے چند برسوں کی طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے ہمارے مسائل حل کیے ہیں یا پہلے سے موجود مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔اگر ہم نے سیاسی، جمہوری، آئینی اور قانونی ریاست کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو موجودہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمارے لیے کارگر ثابت نہیں ہو سکے گی۔
ممکن ہے کہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمیں وقتی طور پر بہتر نتائج دے سکے مگر یہ حکمت عملی مستقل بنیادوں پر اختیار نہیں کی جاسکتی اور آپ کو جنگ کے بعد بھی مذاکرات ہی کی میز پر بیٹھنا ہوتا ہے۔اسی طرح طاقت کے استعمال کو بنیاد بنانا خودکو جمہوری ریاست سے دور رکھنا اور آمرانہ ریاست کی طرف لے جاتا ہے۔یہ جو منطق دی جاتی ہے کہ طاقت کو ہی استعمال کرکے سب کچھ جیتا جاسکتا ہے،اول تو ایسا نہیںہوتا اور اگر کہیں کچھ ہوتاہے تو اس کھیل میں ہمیں سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملتا ۔کیونکہ لوگوں کے دلوں میں جو نفرت کے رویے پیدا ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ کسی بھی سطح پر کمزور طبقات کے خلاف طاقت ہی کا استعمال ہوتا ہے۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم حکومت کی سطح پر طاقت کے استعمال پرمبنی حکمت عملی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں بطور ریاست داخلی اور خارجی محاذ پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں سیاسی مسائل کا حل سیاسی،آئینی اور قانونی فریم ورک میںہی تلاش کرنا ہوگا اور لوگوں کو ساتھ جوڑ کر اپنی حکمت عملیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا ۔ یہ ہی حکمت عملی ہمیں ایک مضبوط ریاست کے بننے میں مدد دے سکتی ہے۔