ایران نے حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد جی پی ایس نظام ترک کرنے کا عندیہ دے دیا ہے اور چینی سیٹلائٹ سسٹم BeiDou کو اپنانے کی تیاری کر رہا ہے۔

ایران کے نائب وزیرِ مواصلات کے مطابق جنگ کے دوران جی پی ایس سگنلز میں شدید خلل دیکھنے میں آیا، جس نے ایران کو اپنے تکنیکی انحصار پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور کر دیا۔

صرف جی پی ایس ہی نہیں، بلکہ ایران نے WhatsApp جیسے مغربی ایپس پر بھی شکوک ظاہر کیے، اور عوام سے ایپ ڈیلیٹ کرنے کی اپیل کی۔

بظاہر یہ ایپس اسرائیل کو صارفین کی معلومات دے سکتی ہیں، جو سیکیورٹی کے لیے خطرناک ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسپیس ایکس نے امریکی خلائی فوج کے لیے جدید جی پی ایس سیٹلائٹ کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیج دی

یہ اقدامات ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہیں، جس میں ایران اور دیگر ممالک امریکی ٹیکنالوجی سے ہٹ کر متبادل ڈیجیٹل نظام قائم کر رہے ہیں۔

اس سمت میں ایران نے پہلے ہی قومی معلوماتی نیٹ ورک تشکیل دیا ہے، جو مستقبل میں چینی طرز کے ’ڈیجیٹل فائر وال‘ میں بدل سکتا ہے۔

چین کا BeiDou اور ایران کی وابستگی صرف تکنیکی نہیں، بلکہ جغرافیائی و سیاسی مزاحمت کی بھی علامت ہے۔

یہ رجحان ایک ’نئی ٹیکنالوجی سرد جنگ‘ کی شروعات ہو سکتا ہے، جس میں ممالک اپنی تکنیکی خودمختاری کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

BeiDou GPS امریکا ایران ٹیکنالوجی وار جی پی ایس چین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایران ٹیکنالوجی وار جی پی ایس چین جی پی ایس ایران نے

پڑھیں:

امریکا اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ویزے کیوں روک رہا ہے؟

وائٹ ہاؤس اس ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک ہونے والے ایرانی اور دیگر ممالک کے وفود پر سفری اور دیگر پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کی ایک اندرونی یادداشت میں سامنے آئی ہے۔

یادداشت کے مطابق ایران، سوڈان، زمبابوے اور برازیل کے وفود پر ممکنہ پابندیاں اس فیصلے کے بعد متوقع ہیں جس میں وائٹ ہاؤس نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور ان کے وفد کو ویزا دینے سے انکار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: حماس کے بغیر فلسطین کا 2 ریاستی حل، اقوام متحدہ میں قرارداد منظور

محمود عباس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونا چاہتے تھے، جہاں کئی مغربی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مجوزہ پابندیاں، جن پر ابھی غور جاری ہے اور جو کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ہیں، ان وفود کی نیویارک شہر سے باہر جانے کی صلاحیت کو شدید حد تک محدود کردیں گی۔

ایرانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پہلے ہی نیویارک شہر کے اندر محدود ہے، تاہم ایک تجویز کے تحت انہیں بڑے ہول سیل اسٹورز جیسے ’کوسٹکو‘ اور ’سیمز کلب‘ پر امریکی محکمہ خارجہ سے پیشگی اجازت کے بغیر خریداری سے بھی روکا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا-بھارت کشیدگی، مودی کا اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے گریز

یہ اسٹورز ایرانی سفارتکاروں میں اس لیے مقبول رہے ہیں کیونکہ وہاں وہ بڑی مقدار میں ایسی اشیا خرید لیتے ہیں جو ایران میں دستیاب نہیں اور نسبتاً سستی ہوتی ہیں، پھر انہیں وطن بھیج دیتے ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ ایران کے لیے یہ شاپنگ پابندی کب نافذ ہوگی، تاہم یادداشت میں کہا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ تمام غیر ملکی سفارتکاروں کی ہول سیل کلبز کی ممبرشپ پر بھی شرائط عائد کرنے کے قواعد مرتب کرنے پر غور کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ میں 2 ریاستی کانفرنس بحال کرنے کی منظوری، امریکا و اسرائیل کی مخالفت

امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون میں ہونے والی 12 روزہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کا حکم دیا۔

اس جنگ کے نتیجے میں اپریل سے جاری امریکی ایران جوہری مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے۔

برازیل کے معاملے میں یہ واضح نہیں کہ ممکنہ ویزا پابندیاں صدر لوئز اناسیو لولا ڈا سلوا پر بھی لاگو ہوں گی یا صرف نچلی سطح کے وفود پر۔

روایت کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سب سے پہلے خطاب برازیل کا صدر کرتا ہے جبکہ امریکی صدر دوسرا مقرر ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل بمقابلہ قطر: کیا خطہ بڑے تنازعے کی طرف بڑھ رہا ہے؟

صدر لولا حالیہ عرصے میں ٹرمپ کے نشانے پر ہیں، کیونکہ برازیلی حکومت سابق صدر جائر بولسونارو پر، جو ٹرمپ کے قریبی اتحادی ہیں، بغاوت کی کوشش کے مقدمات چلا رہی ہے۔

صدر لولا کو گزشتہ سال اسرائیل نے اس وقت ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا تھا جب انہوں نے غزہ کی جنگ کا موازنہ ہولوکاسٹ سے کیا تھا۔

اس کے بعد اسرائیل اور برازیل نے اپنے تعلقات کو تنزلی کی طرف لے جانے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیں: قطر پر حملہ: برطانوی وزیراعظم اور اسرائیلی صدر کے درمیان ملاقات ’جھڑپ‘ میں بدل گئی

یادداشت میں یہ واضح نہیں کہ سوڈان اور زمبابوے کے وفود پر کس نوعیت کی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ البتہ ایک ملک جس کے لیے رعایت دی گئی ہے وہ شام ہے۔

شام کے وفد پر ایک دہائی سے سفری پابندیاں عائد تھیں لیکن گزشتہ ہفتے ان میں نرمی کردی گئی ہے۔

یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ بشار الاسد کی برطرفی کے بعد شام کے نئے دور میں تعلقات بہتر بنانے اور اسے خطے میں دوبارہ شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقوام متحدہ امریکا ایران برازیل پابندیاں زمبابوے سفری سوڈان سیمز کلب شام فلسطینی اتھارٹی فلسطینی ریاست کوسٹکو محکمہ خارجہ محمود عباس نیویارک ہول سیل اسٹورز وائٹ ہاؤس ویزا

متعلقہ مضامین

  • چین نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو امریکی اے آئی چپس خریدنے سے روک دیا
  • چین نے امریکی کمپنی اینوڈیا کی چِپس خریدنے پر اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر پابندی لگادی
  • امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکا کی  ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں ، افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں لگا دیں،افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • امریکا نے ایران کے مالیاتی نیٹ ورک پر نئی پابندیاں عائد کردیں 
  • تکنیکی اورآپریشنل وجوہات کے باعث مختلف پروازیں منسوخ
  • امریکا اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ویزے کیوں روک رہا ہے؟