غزہ سے سوڈان تک بھوک کو جنگی ہتھیار نہیں ہونا چاہیے، یو این چیف
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 جولائی 2025ء) غزہ میں بھوک کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایک ہفتے کے لیے امداد میں اضافے کا فیصلہ جان لیوا غذائی قلت کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے بتایا ہے کہ مزید بڑی تعداد میں بچے بھوک کی شدت سے ہلاک ہو گئے ہیں۔
ادارے نے امید ظاہر کی ہے کہ اسے اردن اور مصر میں موجود خوراک، ادویات اور صحت و صفائی کا سامان لے کر موجود ہزاروں ٹرک غزہ میں لانے کی اجازت مل جائے گی جنہیں اسرائیل نے کئی ماہ سے روک رکھا ہے۔ Tweet URL'انروا' نے کہا ہے کہ بھوک سے اموات کو روکنے کے لیے روزانہ 500 تا 600 ٹرکوں پر خوراک لانا ضروری ہے۔
(جاری ہے)
غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ رواں مہینے ہی غذائی قلت کے باعث 40 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کے تمام سرحدی راستے کھولنا اور ان کے ذریعے بڑے پیمانے پر انسانی امداد پہنچانا ہی زندگی کو بھوک سے تحفظ دینے کا واحد طریقہ ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غذائی نظام کے جائزے پر ایتھوپیا میں منعقدہ اقوام متحدہ کی کانفرنس کے لیے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے غزہ سے سوڈان تک اور دیگر جگہوں پر مسلح تنازعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔
بھوک عدم استحکام میں اضافہ اور امن کو کمزور کرتی ہے اور اسے جنگی ہتھیار کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے۔جنگ میں وقفےگزشتہ ہفتے کے اختتام پر اسرائیل کی پالیسی میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جب اس نے مقامی وقت کے مطابق دن 10 بجے سے رات 8 بجے تک غزہ کے ایسے علاقوں میں روزانہ اپنی عسکری کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا جہاں اس کی فوج زیادہ فعال نہیں ہے۔
اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری کردہ نقشے کے مطابق جنگ میں ان وقفوں کا اطلاق جنوب مغربی علاقے المواصی، وسطی علاقے دیر البلح اور شمال میں غزہ شہر پر ہو گا۔
اطلاعات کے مطابق، گزشتہ روز 100 سے زیادہ ٹرکوں پر مشتمل ایک امدادی قافلہ کیریم شالوم کے راستے غزہ میں داخل ہوا ہے۔ 'انروا'کے مطابق، 2 مارچ کو اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہر طرح کی امداد روکے جانے کے بعد بچوں میں غذائی قلت تیزی سے بڑھی ہے۔
قحط کا خطرہ برقرارامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے امدادی سرگرمیوں میں سہولت کے لیے جنگ میں وقفے دینے کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں لوگ کئی روز فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ ادارے کے سربراہ ٹام فلیچر کا کہنا ہے کہ اس وقت لوگ خوراک کے حصول کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور بچے شدید جسمانی کمزوری کا شکار ہیں۔
اگرچہ حالیہ دنوں امداد کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے لیکن قحط کا خطرہ روکنے کے لیے یہ اب بھی ناکافی ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں عارضی طور پر بڑی مقدار میں امداد بھیجنے کی اجازت ملنے کے بعد مصر میں خوراک، ادویات اور ایندھن پر عائد کسٹم کی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں اور اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں کے لیے محفوظ راستوں کا تعین بھی کر لیا گیا ہے۔
دو ریاستی حل کی کوششنیویارک میں فرانس اور سعودی عرب نے اسرائیل اور فلسطینی لوگوں کے دیرینہ مسئلے کا دو ریاستی حل ممکن بنانے کے لیے نیا سفارتی اقدام شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے تین روزہ کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے جبکہ فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں ستمبر میں فلسطینی ریاست کو رسمی طور پر تسلیم کریں گے۔ اس طرح فرانس یہ اقدام اٹھانے والا جی 7 گروپ کا پہلا ملک ہو گا۔
1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو برطانوی اختیار کے تحت یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کیا جس کے بعد 1948 میں اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے اسرائیل کی کی جانب سے کے مطابق ہے کہ اس کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے
جنرل اسمبلی میں بھارتی نمائندے کے ریمارکس پرپاکستانی مندوب کا دوٹوک جواب
پاکستان نے اقوام متحدہ میں واضح کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔