عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
عافیہ صدیقی کیس میں وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق رجسٹرار آفس اسلام آباد ہائی کورٹ سے وزیراعظم شہباز شریف اور وزرا کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ وقتی طور پر رک گیا ہے۔ رجسٹرار آفس ذرائع کے مطابق جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے آفس سے 16 جولائی کو نوٹ آیا تھا کہ وہ 21 جولائی سماعت کریں گے ۔
ذرائع رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے نوٹ سے پہلے ہفتہ وار روسٹر جاری ہو چکا تھا، اب اس میں ترمیم ہونا تھی اور پھر کاز لسٹ جاری ہونا تھی ۔ رجسٹرار ہائی کورٹ کے مطابق ہم نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی 21 جولائی کی سماعت کے لیے حوالے سے 16 جولائی کے بعد مجاز اتھارٹی کو نوٹ لکھا تھا ۔ مجاز اتھارٹی کا جواب ابھی نہیں آیا، آئے گا تو ہی اس پر کچھ بتا سکیں گے۔
رجسٹرار آفس کے ذرائع کے مطابق کیس مقرر نہیں تھا جس کو سنا گیا اور آرڈر ہوا ۔ اب اس سے متعلق عدالتی آرڈر پر نوٹس کیسے بھجیں ؟۔ مجاز اتھارٹی سے اس حوالے سے رائے لیں گے۔
واضح رہے کہ عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور وزرا کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا تھا اور عدالت نے 2 ہفتے میں وزیراعظم اور وزرا سے جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عدالت کا نوٹس کے مطابق کو توہین
پڑھیں:
لیویز فورس کا پولیس میں انضمام: بلوچستان ہائیکورٹ کا سخت نوٹس، اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری
بلوچستان ہائیکورٹ نے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق اپنے واضح احکامات کی خلاف ورزی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان سمیت متعدد اعلیٰ افسران کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نمبر 3، جسٹس اقبال کاسی اور جسٹس ایوب ترین پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 26 جون اور 17 جولائی 2025 کو جاری کیے گئے عدالتی احکامات کی یاددہانی کرائی، جن میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے عمل کو واضح طور پر روک دیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان احکامات کے باوجود متعلقہ حکام نے مراسلہ جات جاری کیے، اجلاس منعقد کیے اور دیگر عملی اقدامات کیے، جو صریحاً عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام، تجویز کس کی تھی؟
عدالت نے چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ و قبائلی امور، ڈی جی لیویز، کمشنر ژوب ڈویژن، ڈپٹی کمشنرز قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی سمیت ایس پیز اور دیگر متعلقہ افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت طلب کر لی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل باسط شاہ ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری ہونے کے باوجود صوبائی حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل جاری رکھا، جس میں میٹنگز، احکامات اور فیلڈ میں عملی اقدامات بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے تربت بینچ نے 24 جون 2025 کو حکومت بلوچستان کی جانب سے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق جاری کیے گئے نوٹیفکیشنز کو معطل کر دیا تھا اور لیویز کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے 20 مئی اور 17 جون کو جاری نوٹیفکیشنز پر عملدرآمد روک دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس کے حتمی فیصلے تک کوئی پیش قدمی نہ کی جائے۔
لیویز فورس کی قانونی نمائندگی سینئر وکیل طاہر علی بلوچ نے کی، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ لیویز کو پولیس میں ضم کرنا نہ صرف آئین اور قانون کے منافی ہے بلکہ اس سے عوامی مفاد بھی بری طرح متاثر ہو گا۔
واضح رہے کہ حکومت بلوچستان نے 17 جون کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے 13 اضلاع میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی تھی، جو ’بی ایریا‘ کو ’اے ایریا‘ میں تبدیل کرنے کی سفارشات مرتب کرے گی۔ کمیٹی کو 10 جولائی تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
قبل ازیں، جنوری 2025 میں کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل مکمل کیا گیا۔ اس ضمن میں ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ اقدام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہم آہنگی کو فروغ دے گا اور امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنائے گا۔
یہ بھی پڑھیں پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 2003 میں بھی نیشنل پبلک سیفٹی پلان کے تحت پورے صوبے کو ’اے ایریا‘ قرار دے کر لیویز کو پولیس کا حصہ بنایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں 2008 میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت نے اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے لیویز کو بحال کر دیا تھا۔
لیویز فورس، جو 1860 کی دہائی میں برطانوی دور میں تشکیل دی گئی، اس وقت بلوچستان کے 82 فیصد علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے، جبکہ پولیس کا دائرہ صرف شہری علاقوں یعنی 18 فیصد حصے تک محدود ہے۔ لیویز فورس کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے اور یہ ایک باقاعدہ قانون کے تحت خدمات انجام دے رہی ہے۔
بلوچستان میں ’اے ایریا‘ اور ’بی ایریا‘ کی بنیاد پر پولیسنگ کا دوہرا نظام رائج ہے۔ شہری علاقوں میں پولیس، جبکہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں لیویز فورس امن و امان کی ذمہ دار ہے۔
بلوچ عوامی حلقوں کی اکثریت لیویز کو ایک مقامی، بااعتماد اور مؤثر فورس سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے لیویز کے انضمام کے خلاف ہر دور میں آواز بلند کی جاتی رہی ہے، اور اب عدالتی احکامات کی روشنی میں اس مسئلے نے ایک بار پھر سنگین قانونی رخ اختیار کر لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان ہائیکورٹ لیویز فورس