Express News:
2025-08-01@18:14:31 GMT

طاقت پر مبنی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT

ہماری سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی کی بجائے طاقت کے انداز میں ہی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔جب ان کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ ملا کر ،بات چیت اور انھیں ساتھ جوڑ کر ان کو مسائل کے حل میں شریک کرنا ہوگا۔لیکن وہ طاقت کو ہی اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔اس حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کا نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے، حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے مگر اس کے باوجو ہم نظام کی غلطیاں درست کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

اصولی طورپر کسی مسلے کو حل کرنے کے لیے طاقت آخری آپشن کے طورپر استعمال کی جاتی ہے ، اس سے پہلے وہ تمام آپشن اختیار کیے جاتے ہیں جن کی نوعیت سیاسی ہوتی ہے۔لیکن ہم سیاسی حکمت عملی کو ابتدائی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے فوری طورپر طاقت کے استعمال کی جانب جاتے ہیں ، اس کاایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی سیاسی قیادت میں جہاں قبولیت کم ہوتی ہے وہیں یہ لوگوں میں منفی ردعمل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ہم قومی سیاست سے جڑے مسائل کوسیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔اول یا تو موثر سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے یا اس کی ملکیت کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔دوئم ہم سمجھتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے اور ہمیں ان کا علاج ہی طاقت کے استعمال سے کرنا ہوگا۔

عمومی طورپرہمیں اپنے قومی مسائل کے حل کے لیے سیاسی فورمز اختیار کرنے چاہیے تھے اور مکالمہ کی مدد سے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے تھا جس میں داخلی سفارت کاری کو ہر سطح پر ترجیح ملنی چاہیے تھی۔

اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں جو حالات ہیں، ان صوبوں کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔دوسری طرف دہشت گردی کا ماحول بھی ان دونوں صوبوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ریاستی سطح پر سنگین نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں ۔دوسری جانب جو سیاسی عدم استحکام ہے اس نے بھی ہمارے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔بہت سے لوگوں خیبر پختون خواہ یا بلوچستان میں دہشت گردی اور قومی سطح پر سیاسی تقسیم کے خاتمہ میں سیاسی فریقین سے بات چیت کے حامی ہیں کیونکہ سیاسی لوگ نظام پر یقین رکھتے ہیں۔

 ان سے بات چیت کے دروازوں کو کھولا جائے اور ان لوگوں کی آوازوں کو سنا جائے ۔کیونکہ جب ہم بات چیت کے تمام دروازے بند کردیں گے تو پھر انتہا پسندی رجحانات کا پیدا ہونا فطری امر ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سیاست میں بھی سیاسی اور جمہوری روش کمزور اور مسائل کے حل کے لیے سب ہی طاقت کے استعمال کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ جو جنگی ہتھیاروں پر مبنی ڈپلومیسی ہے اس نے دنیا کی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے ۔یہ ہی کچھ ہمیں پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اس کا نتیجہ جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کررہا ہے وہیں ریاستی سطح پر ہمیں عدم سیکیورٹی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہماری ان داخلی سطح کی کمزوریوں کا فائدہ دشمن اٹھارہا ہے اور ہم ایک مضبوط ریاست کے طور پر ناکامی سے دوچار ہیں۔ ریاست میں موجود لوگ یا مختلف سیاسی یا غیر سیاسی گروہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کسی بھی سطح پر ہماری بات یا ہمارے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس کا نتیجہ ریاست پر عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو خود ریاست کے لیے کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔

لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر ہم نے ریاست کی بات تسلیم نہ کی یا حکومت کی پالیسیوں کو نظر انداز کرکے اپنی بات کرنے کی کوشش کی تو ہمیں ریاست کی طرف سے سخت مزاحمت سمیت طاقت کے استعمال کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی طور پر اچھے رجحان کی عکاسی نہیں کرتا۔ایسے لگتا ہے ہماری ریاست سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی حکمت عملیوں کی اہمیت سے دور ہوتی جا رہی اور سیاسی و جمہوری سپیس بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔

جب حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے بن جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کے لیے بھی ریاست کے نظام کے اندر اندھی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی کلچر پرتشدد اور انتہا پسند رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سب کو لگتا ہے ہمیں بھی ہر سطح پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہی کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔کیونکہ آج بھی دنیا میں بیانیہ کی جنگ ہے اور اس میں ہم کو سفارت کاری کی سیاست مضبوط بنیادوںپر نظر آتی ہے توا س کا مطلب ہے کہ پرامن سیاسی اور جمہوری حکمت عملی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم سیاسی حکمت عملیوں کو ہی اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں ۔

حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ پچھلے چند برسوں کی طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے ہمارے مسائل حل کیے ہیں یا پہلے سے موجود مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔اگر ہم نے سیاسی، جمہوری، آئینی اور قانونی ریاست کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو موجودہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمارے لیے کارگر ثابت نہیں ہو سکے گی۔

ممکن ہے کہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہمیں وقتی طور پر بہتر نتائج دے سکے مگر یہ حکمت عملی مستقل بنیادوں پر اختیار نہیں کی  جاسکتی اور آپ کو جنگ کے بعد بھی مذاکرات ہی کی میز پر بیٹھنا ہوتا ہے۔اسی طرح طاقت کے استعمال کو بنیاد بنانا خودکو جمہوری ریاست سے دور رکھنا اور آمرانہ ریاست کی طرف لے جاتا ہے۔یہ جو منطق دی جاتی ہے کہ طاقت کو ہی استعمال کرکے سب کچھ جیتا جاسکتا ہے،اول تو ایسا نہیںہوتا اور اگر کہیں کچھ ہوتاہے تو اس کھیل میں ہمیں سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملتا ۔کیونکہ لوگوں کے دلوں میں جو نفرت کے رویے پیدا ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ کسی بھی سطح پر کمزور طبقات کے خلاف طاقت ہی کا استعمال ہوتا ہے۔

اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم حکومت کی سطح پر طاقت کے استعمال پرمبنی حکمت عملی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں بطور ریاست داخلی اور خارجی محاذ پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں سیاسی مسائل کا حل سیاسی،آئینی اور قانونی فریم ورک میںہی تلاش کرنا ہوگا اور لوگوں کو ساتھ جوڑ کر اپنی حکمت عملیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا ۔ یہ ہی حکمت عملی ہمیں ایک مضبوط ریاست کے بننے میں مدد دے سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاقت کے استعمال کی حکمت عملی مسائل کا حل تلاش سیاسی حکمت عملی مسائل کے حل تلاش کرنا کرنا ہوگا سیاسی اور ریاست کی ریاست کے ہے کہ ہم بات چیت اور ان ہے اور کے لیے

پڑھیں:

پاک، چین تعلقات باہمی اعتماد، غیر متزلزل حمایت اور مشترکہ عزم پر مبنی ہیں: فیلڈ مارشل

ویب ڈیسک: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے 98 ویں یوم تاسیس پر کہا ہے کہ پاک، چین دوستی وقت کی کسوٹی پر پورا اتری ہے، پاک چین تعلقات باہمی اعتماد، غیر متزلزل حمایت اور مشترکہ عزم پر مبنی ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے 98 یوم توسیس پر جی ایچ کیو میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں چینی سفیر نے بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔

پنجاب حکومت کاصحت کےمنصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹرکوشراکت داربنانےکافیصلہ

اس موقع پر چین کے دفاعی اتاشی میجر جنرل وانگ زونگ نے بھی سفارتخانے کے حکام کے ہمراہ شرکت کی جنہیں فیلڈ مارشل نے خوش آمدید کہا، اس موقع پر پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے افسران بھی موجود تھے۔

 آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے پیپلز لبریشن آرمی کو مبارکباد دیتے ہوئے چین کے دفاع، سلامتی اور قومی تعیر و ترقی میں پی ایل اے کے کردار کی تعریف کی اور دونوں ممالک کے درمیان سٹرٹیجک تعاون کی اہمیت کا بھی ذکر کیا۔

 ساف انڈر 17 چیمپئن شپ 2025 کا شیڈول جاری

تقریب میں فیلڈ مارشل نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات منفرد، آزمائی ہوئی دوستی کی بنیاد پر ہیں، دونوں ممالک علاقائی اور عالمی چیلنجز پر مشترکہ موقف رکھتے ہیں، پاک چین تعلقات، باہمی اعتماد، غیر متزلزل حمایت اور مشترکہ عزم پر مبنی ہیں۔

 فیلڈ مارشل نے یہ بھی کہا کہ سٹریٹیجک صورتحال بدلنے کے باوجود دونوں ممالک کی دوستی ثابت قدم اور غیر متزلزل ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق چینی سفیر نے تقریب کے انعقاد پر فیلڈ مارشل کو خراج تحسین پیش کیا، چینی سفیر نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کے کردار کو سراہا۔

ایاز صادق کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم بنانے پر اتفاق

چینی سفیر نے پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری اور حمایت کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاک، چین تعلقات باہمی اعتماد، غیر متزلزل حمایت اور مشترکہ عزم پر مبنی ہیں: فیلڈ مارشل
  • ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت ختم کردی ہے، ٹرمپ
  • بھارت خود کو ایک ذمہ دارعالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہا، امریکی وزیر خزانہ
  • کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی، دنیا دہشتگردی کیخلاف ہماری کامیابیوں کی معترف: وزیراعظم
  • پاکستان کی انسداد دہشتگردی حکمت عملی عالمی سطح پر موثر قرار دی گئی ہے، وزیر اعظم
  • ریاست پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ  میں کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے؛ وزیراعظم
  • ریاست نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے، وزیراعظم
  • ریاست نے دہشت گردی کے خلاف جنگ  میں کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے، وزیراعظم
  • فتنۂ ہندوستان اورفتنۂ خوارج کےخاتمے کیلئے جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے،وزیراعظم