فنڈز کی کمی اور سیاسی تعطل: امریکا میں بھوک کا نیا بحران سر اٹھانے لگا
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں جاری سرکاری شٹ ڈاؤن نے ایک نئے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی ہے، جہاں تقریباً 4 کروڑ 210 لاکھ شہریوں کے بھوک اور غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس فنڈز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جب کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان سیاسی تعطل نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ہفتے سے امریکا کے سب سے بڑے خوراکی امدادی پروگرام “سپلیمنٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام” (SNAP) کی فنڈنگ رکنا شروع ہو جائے گی۔ یہ وہی پروگرام ہے جسے عام طور پر “فوڈ اسٹامپس” کہا جاتا ہے اور جس سے کم آمدنی والے لاکھوں خاندان اپنی روزمرہ غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
امریکی محکمہ زراعت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہنگامی فنڈز استعمال نہیں کرے گا، حالانکہ اس اقدام سے نومبر کے لیے محدود مدت تک امداد جاری رہ سکتی تھی۔
ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ زراعت قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ تقریباً 5.                
      
				
سینیٹر جین شاہین نے الزام لگایا کہ ٹرمپ انتظامیہ بھوک کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جب کہ دوسری جانب ریپبلکن ارکان کا کہنا ہے کہ بحران کی ذمہ داری ڈیموکریٹس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ حکومت کو چلانے کے لیے درکار Continuing Resolution Bill کی حمایت سے گریزاں ہیں۔
کانگریس میں بھی امدادی پروگرام کی بحالی پر تنازع شدت اختیار کر چکا ہے۔ چند ریپبلکن اراکین نے نومبر کے لیے جزوی فنڈنگ کا بل پیش کیا ہے، مگر اب تک ووٹنگ نہیں ہو سکی۔
یاد رہے کہ ماضی میں جب شٹ ڈاؤن ہوا تو بھی SNAP نظام کے تحت عوام کو امداد فراہم کی جاتی رہی، مگر اس بار محکمہ زراعت نے اپنے مؤقف میں یو ٹرن لے لیا ہے اور ویب سائٹ سے پرانی ہدایات ہٹا دی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
آزاد کشمیر میں وزیراعظم کی تبدیلی پر نواز شریف نے ہی فیصلہ کرنا ہے، راجہ فاروق
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایوانِ صدر کا استعمال سیاسی غیر جانبداری کے اصولوں کے منافی ہے، فیصلہ پیپلز پارٹی ضرور کرے لیکن ریاستی علامتوں کا سیاسی استعمال درست نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پارلیمانی لیڈر مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے لیے ایوانِ صدر کا استعمال درست نہیں تھا، ایوان صدر میں آزاد کشمیر کے سیاسی بحران پر 3 اجلاس ہونا درست عمل نہیں۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو اس معاملے میں خصوصی احتیاط کرنا چاہیے تھی۔ راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ آزاد کشمیر میں وزیراعطم کی تبدیلی پر نواز شریف نے ہی فیصلہ کرنا ہے، پیپلز پارٹی بھی اپنی قیادت، آصف زرداری یا بلاول بھٹو سے مشاورت کے بعد فیصلے کرتی۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کی زیر صدارت زرداری ہاؤس میں اجلاس ہوا، اس میں کوئی قباحت نہیں، ایوانِ صدر میں اجلاس نے آزاد کشمیر کی سیاسی تبدیلی پر سوالات کھڑے کر دیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایوانِ صدر کا استعمال سیاسی غیر جانبداری کے اصولوں کے منافی ہے، فیصلہ پیپلز پارٹی ضرور کرے لیکن ریاستی علامتوں کا سیاسی استعمال درست نہیں، وفاقی وزرا کو بھی آزاد کشمیر کے معاملے پر اس طرح گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔
 حکومت عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کررہی ہے،شوکت یوسفزئی
حکومت عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کررہی ہے،شوکت یوسفزئی