data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقلاب کے بعد مدتوں تک ایران تنہا مغربی طاقتوں کے نشانے پر تھا کیونکہ انقلاب کی صورت میں عوامی طاقت نے ایک کرم خوردہ شہنشاہیت ہی کو نہیں مغربی طاقتوں کے مفادات کے محافظ اور نگہبان طبقے کو نکال باہر کیا تھا۔ انقلاب کے اگلے ہی برس مغرب نے اپنے ایک نظریاتی مخالف صدام حسین کو ایران پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دی مگر یہ جنگ بے نتیجہ رہی۔ طویل اور بے نتیجہ جنگ کا انجام ہوتے ہی خود صدام حسین امریکا کے نشانے پر آگئے۔ مقصد اسرائیل کے گرد عافیت بے حسی سکون اور سکوت کا ایک لق ودق صحرا تشکیل دینا تھا جہاں دور دور تک کوئی طاقت اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ جس مسلم حکمران میں اس راہ میں رکاوٹ بننے کی چنگاری دکھائی دی وہ غیر فطری انجام سے دوچار ہوا۔ نائن الیون کے بعد مغرب کے بااثر حلقوں میں ایک نئی سوچ اْبھری اور انہوں نے مسلم دنیا کے لیے جینے کا نیا نصاب تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے خیال میں مشرق وسطیٰ اور خلیج کے بوڑھے عرب بادشاہ اور حکمران امریکا کا بوجھ بن چکے ہیں امریکا اس بوجھ کو تادیر اْٹھا کر نہیں پھر سکتا۔ ان عرب حکمرانوں کی سرپرستی میں نوجوانوں میں مغرب مخالف جذبات پروان چڑھے۔ ان حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف ردعمل کا خمیازہ امریکا کو نائن الیون کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے اس لیے ایسے حکمرانوں سے جان چھڑا لینی چاہیے اور ان ملکوں میں جمہوریت مزید لبرل ازم کو فروغ دینا چاہیے۔ یہیں سے عرب بہار اور رجیم چینج کے منصوبے بننے لگے۔ جمہوریت کا لٹمس ٹیسٹ انہوں نے تیونس اور مصر جیسے ممالک میں کر کے اس کام کو مزید آگے بڑھانے سے توبہ کر لی۔ مصر میں تو جمہوریت کا تجربہ اس قدر خوفناک رہا کہ سال بھر میں جمہوریت کی بساط ہمیشہ کے لیے لپیٹ دی گئی اور اس کا اسکرپٹ قاہرہ کے مغربی سفارت خانوں میں لکھا گیا تھا۔ مصر کی جمہوریت سے ایک غیر مطلوب اور ناپسندیدہ جمہوریت کی شکل سامنے آئی تھی جو انہیں خوف زدہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ اسے وہ پولٹیکل اسلام کا نام دیتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکی صدر جار ج بش دوم نے پانچ ملکوں کو Axis of Evil یعنی بدی کے محور قرار دیا۔ یہ حقیقت میں امریکا کی ہٹ لسٹ تھی۔ اس فہرست میں چار نام ان مسلم ممالک کے تھے جو اسرائیل سے مخاصمت رکھتے تھے اور فلسطینیوں کے حقوق کی برسرعام وکالت کرتے تھے۔ ان میں عراق، ایران، شام اور لیبیا شامل تھے جبکہ جو پانچوں نام بس رسمی طور پر شامل نظر آتا تھا وہ چین کے اثر رسوخ کا حامل شمالی کوریا تھا۔ چار مسلمان اسرائیل کے قرب وجوار میں تھے اور ان میں سے ہر کسی کی اسرائیل کے ساتھ براہ راست مخاصمت موجود تھی۔ جب پہلی خلیجی جنگ میں مغربی قوتوں نے عراق پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تو عراق نے علامتی طور پر اسرائیل کی طرف ہی میزائل اْچھالے تھے۔ ہر میزائل کے گرتے ہی مسلمان دنیا میں جوش کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ شام، لیبیا اور ایران بھی اسرائیل مخالف ملکوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس طرح بدی کے محور ملکوں کی قدر ِ مشترک اسرائیل کی مخالفت یا اسرائیل کا ان سے خوف محسوس کرنا تھا۔ نائن الیون کے وقت امریکی میڈیا میں جو تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے ان کا مرکزی خیال ہوتا تھا کہ بدی کے محور ملکوں کے ساتھ سعودی عرب اور پاکستان بھی اسرائیل کے وسیع تر مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔
سعودی کے سلفی ازم کی چھتری تلے مغرب مخالف جذبات پروان چڑھتے ہیں اور اس کے لیے وہ اسامہ بن لادن اور نائن الیون کے جہازوں کے اٹھارہ میں سے سولہ اغوا کاروں کے سعودی عرب سے تعلق کا حوالہ دیتے تھے اور پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ دھاتوں سے بنے ہوئے دنیا کے تمام ایٹم بموں کی طرح پاکستان کے بنے ہوئے ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دینا ایک اندرونی خو ف کا مظہر تھا۔ پاکستان کے ایٹم بم کو یہ نام مغربی میڈیا اور صہیونی دانشوروں ہی نے دیا تھا۔
بدی کے محور ملکوں میں عراق اور لیبیا زمیں بوس ہوگئے۔ ان کے مغرب مخالف اور عرب قوم پرست لیڈروں کو ذلت آمیز انداز سے سیوریج کے پائپوں اور زیر زمین گڑھوں سے نکال کر اپنی انا کو تسکین بھی دی گئی اور دنیا کو پیغام بھی دیا گیا وہ جنہیں ہیرو سمجھتے تھے مغرب انہیں چوہا بنا کر رکھ سکتا ہے۔ ان ملکوں میں حکومتیں اْلٹ دی گئیں اور ا س کے بعد بے نام ونمود کردار بٹھا دیے گئے کہ جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ برسوں بعد دنیا ان کے ناموں سے بھی آشنا اور آگاہ نہیں ہو سکی۔ شام اس فہرست کا تیسرا ملک تھا جہاں روس نے درمیان میں آکر رجیم چینج کے عمل کو بریک لگائی مگر وہ ہمیشہ کے لیے اس عمل کو نہ روک سکا اور آخر کار شام میں بھی اسرائیل مخالف حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ایران اس فہرست کا چوتھا ملک ہے۔ جہاں امریکا برسوں سے رجیم چینج کا ایجنڈا لیے پھرتا ہے۔ ہر دو چار برس بعد ایران میں عوامی اضطراب کی لہریں چل پڑتی ہیں مگر ایران کا نظام ان لہروں کو سہہ جاتا ہے۔ ایران میں رجیم چینج کے بغیر اسرائیل کے گرد تقدس اور حفاظت کا ہالہ بْنا ہی نہیں جاسکتا۔ ایران نے اسرائیل کے ساتھ لڑائی کے لیے اسرائیل کے غیر حکومتی عناصر کی حمایت کی حکمت عملی اپنائی۔ لبنان میں حزب اللہ فلسطین میں حماس، یمن میں حوثی ایران کے وہ پر تھے جن کے ذریعے وہ اسرائیل مخالف فضاؤں میں محو پرواز تھا۔ حماس کے طوفان الاقصیٰ کے بعد شروع ہونے والی لڑائی میں اسرائیل کو حزب اللہ اور حماس کی قیادت کو نقصان پہنچا کر یہ پر کاٹ ڈالنے یا کمزور کرنے کا موقع ملا اور یوں لڑائی اپنے اصل مقام کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ مقام تھا تل ابیب، تہران براہ راست تصادم جو دیوار پر لکھا جا چکا تھا۔ اس دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک محدود سی لڑائی میں اسرائیل ڈرونز اور دوسری ٹیکنالوجی کی شکل میں پوری قوت سے نظر آیا۔ اپنے ایک اور خوف یعنی ایٹمی پاکستان کا بھارت کے ذریعے علاج کرانے کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔
بدی کے محور چوتھے مسلم ملک کے ساتھ اسرائیل نے کھلے تصادم کا راستہ اختیار کیا۔ مقصد وہی تھا جو تین ملکوں میں اپنایا گیا کہ پہلے بیرونی حملوں کے ذریعے ریاستی ڈھانچے اور افواج کو بکھیر دیا جائے پھر ایک فورس کھڑی کرکے ریاست کا کنٹرول سنبھالے اور ایک کٹھ پتلی کو نئے قائد کے طور پر متعارف کرایا جائے اور یوں خوف اور خطرے کے سایوں سے آزاد ہوا جائے۔ ایران نے اس جارحیت کا بھرپور جواب دیا اور اسرائیل کے گرد تقدس کا ہالہ بھی توڑ کر رکھ دیا۔ اس ہالے کو صرف حزب اللہ اور حماس جیسی ملیشیاؤں نے ہی پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا تھا ایران پہلا مسلمان ملک ہے جس نے مغرب کے اس آبگینے کو ٹھیس پہنچائی۔ یوں تل ابیب بھی غزہ جیسا منظر پیش کر تا ہوا نظر آرہا ہے۔ ایران کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ پہلی کوشش ہے نہ آخری۔ اس سے پہلے تین ممالک اس طوفان میں بہہ چکے ہیں اور اس کے بعد بھی اسرائیل کا خوف اور خطرہ اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دے گا۔ اس لیے آج جو کچھ ہو رہا ہے ایران کی باری ہے۔ کچھ اپنے انجام کا شکار ہوچکے ہیں اور کچھ اپنی باری کے منتظر ہیں یہ نکتہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیے بیٹھے عرب حکمرانوں کو سمجھ میں آیا تو ایک معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نائن الیون کے بھی اسرائیل بدی کے محور اسرائیل کے ملکوں میں رجیم چینج کے ساتھ ا اور ا اور اس کے لیے کے بعد
پڑھیں:
اسرائیل نے یمن فلسطین اور ایران کو نشانہ بنایا،مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو ہم سب کی باری آئے گی،خواہ آصف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(خبر ایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آئے گی۔قومی اسمبلی کا بجٹ پر بحث کے لیے اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا، جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یہاں بجٹ پر بحث شروع ہے، مگر کل ہمارے ہمسایہ ملک پہ حملہ ہو گیا۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، جس کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ایسے رشتے ہیں ایرانیوں کے ساتھ جن کی مثال شاید تاریخ میں کم ہی ملتی ہو۔ اسرائیل نے یمن، ایران، فلسطین کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے۔ آج مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آجائے گی۔ اس وقت لازم ہے کہ کچھ اقدامات کیے جائیں۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس نازک صورت حال میں او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ کہیں اسلامی دنیا میں اس کے خلاف اس طرح آواز نہیں اْٹھ رہی جس طرح باقی دنیا میں اْٹھ رہی ہے۔ غیر مسلموں کے ضمیر جاگ رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے ضمیر نہیں جاگ رہے۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر تنقید کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ کمیٹی روم 2 میں ایک میٹنگ ہوئی تھی، ہم بیٹھے رہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم آئیں۔ ابھی نندن کو واپس کیا گیا اور وہ ایک سرینڈر تھا۔ اس وقت کے آرمی چیف اور وزیراعظم نے مل کر قومی وقار کو ٹھیس پہنچائی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت کے خلاف جنگ میں فتح پر تاقیامت فخر ہے۔ ایک سال میں جو کچھ حاصل کیا، اس پر وزیر خزانہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیر خزانہ نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی اداروں سے اعتماد حاصل کیا۔ ایک لمبا سفر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ کی قیادت میں ہم نے طے کیا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ ساری سیاست کا محور ایک شخص کو بنا دینا، یہ حب الوطنی نہیں ہے۔ یہ حب الشخص ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے لوگ آئے اور دنیا سے رخصت ہوئے۔ بقا وطن کو ہے۔ نئی لیڈرشپ تیار کریں تاکہ آپ کی پارٹی زندہ رہے۔ یہ پیری فقیری نہیں کہ آپ گدی نشین بن جائیں۔ الیکشن کو گزرے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے اور ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے۔ سارے راگ بے سرے ہو گئے ہیں۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ میں نے دونوں صورتحال دیکھی ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم اورآرمی چیف کا حوصلہ دیکھا۔ آج بھی وزیراعظم اور عسکری قیادت کے حوصلے دیکھے۔ بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی اور اسے جواب دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ کسی مرحلے پر کسی کے ذہن میں شائبہ بھی نہ آیا کہ ہم نے قومی وقار پر سمجھوتا کرنا ہے۔ ہماری افواج کے حوصلے بے مثال تھے۔ بڑی مدت کے بعد ریاست میں ایک اعتماد آیا ہے۔ عوام میں اعتماد آیا کہ ہمارے محافظ دلیر ہیں۔ ائرفورس نے کمال کردکھایا ، جنہوں نے دیکھا، وہ بھی عش عش کر اٹھے۔ ہمیں اس فتح پر تا قیامت فخر ہوگا۔خواجہ آصف نے کہا کہ وزیرخزانہ نے بہترین بجٹ پیش کیا ہے۔ عوام کو مکمل ٹھنڈی ہوا نہیں لگ رہی، آج بھی مسائل میں ہیں ، لیکن ہم ان مسائل سے نکل رہے ہیں۔ آئندہ کچھ ماہ یا سال میں بہتر معیشت ہو گی۔